misophonia ایک عام مگر پُراسرار مرض

ندیم سبحان میو  اتوار 23 جون 2019
جس میں مبتلا فرد کھانے کے دوران کسی کے منھ سے آتی آواز سُن کر غصے کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے

جس میں مبتلا فرد کھانے کے دوران کسی کے منھ سے آتی آواز سُن کر غصے کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے

 کیا آپ کو کچھ عام سی آوازیں جیسے کسی کے آلو کے خستہ چپس کھانے کی آواز فوراً غصے میں لے آتی ہے؟ کیا کھانا کھانے کے دوران کسی کے منہ سے برآمد ہوتی آواز آپ کے ضبط کا امتحان لیتی ہے؟

بعض افراد کو کسی کے کچھ چبانے، ٹائپ کرنے یہاں تک کہ کسی کے سانس لینے کی آواز بھی اس قدر ناگوار محسوس ہوتی ہے کہ وہ چشم زدن میں غصے کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، ان کا پارا آسمان کو چُھونے لگتا ہے، دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور دل میں اس شخص کا سر توڑ دینے کی شدید خواہش جنم لیتی ہے۔ قوت برداشت جواب دے جائے تو وہ اس شخص سے الجھ بھی پڑتے ہیں۔

اگر آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے تو پھر آپ میزوفونیا (misophonia ) میں مبتلا ہیں۔ طبی محققین کے مطابق یہ ایک پراسرار کیفیت ہے جس میں مبتلا فرد کچھ عام سی آوازوں سے بے حد حساسیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پُراسرار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت سنگین بھی ہے اور بعض اوقات متأثرہ فرد کی زندگی میں اہم تبدیلیوں کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ایمسٹرڈم یونیورسٹی کے ماہرنفسیات پروفیسر ڈیمیئن ڈینس کہتے ہیں کہ دوران تحقیق یہ دیکھا گیا کہ میزوفونیا کے کئی مریضوں نے اس کیفیت کے زیراثر اپنے شریک حیات سے طلاق لے لی تھی، جنھیں کھانے پینے کے دوران اپنے زوج کے منھ سے آتی آواز برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اس کیفیت میں مبتلا کئی افراد نے ملازمتیں بھی چھوڑ دیں۔ یوں یہ پراسرار مرض اپنے اندر گہری سنگینی بھی لیے ہوئے ہے۔

ماہرین طب میزوفونیا کو اگرچہ ایک سنگین کیفیت گردانتے ہیں مگر اس مرض پر تحقیق کا دائرہ محدود ہے اور اب تک اسے باقاعدہ طور پر کوئی نفسیاتی یا دماغی مرض تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ ماہرین نفسیات، جنھوں نے اپنے مریضوں میں میزوفونیا کے شدید اثرات کا مشاہدہ کیا ہے، کا کہنا ہے کہ اس مرض کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے نیویارک سٹی میں واقع ارونگ میڈیکل سینٹر سے وابستہ طبی نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلی میٹو کہتے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ یہ مرض ہوتا ہے، مگر یہ دراصل ہے کیا؟ یہ ہنوز ایک راز ہے۔

میزوفونیا کے پس پردہ اسباب سے اب تک مکمل طور پر پردہ نہیں اٹھایا جاسکا، تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ کچھ مخصوص آوازوں کو دماغ کا پروسیس کرنا اور ان پر ردعمل ظاہر کرنا ہے۔ دوران تحقیق پروفیسر ڈیمیئن ڈینس اور ان کی ٹیم نے پتا لگایا کہ میزوفونیا میں مبتلا افراد کے دماغ کے salience network میں کچھ عام سی آوازیں سننے پر سرگرمی بہت بڑھ جاتی ہے۔ salience network دماغ کا وہ حصہ ہے جو اطراف موجود اشیاء پر ہماری توجہ مرکوز کرتا ہے۔ نارمل افراد میں دماغ کا یہ حصہ پُرسکون رہتا ہے۔ دماغ کے اس جزو میں تحریک کی وجہ سے ایک فرد یکایک غصے اور ناگواریت کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

میزوفونیا پر زیادہ تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کے اسباب مکمل طور پر آشکارا نہیں ہوسکے چناں چہ اس کی تشخیص اور علاج معالجے کے بارے میں بھی ماہرین خاموش ہیں۔ بہرحال ماہرین نفسیات ظاہر ہونے والی کیفیات کی مناسبت سے علاج کی تیکنیک اختیار کرتے ہیں۔ جو مریض کھانے پینے یا کسی کے سانس لینے کی آواز سُن کر غصے میں آجاتے ہیں ان کے علاج کے لیے ماہرین نفسیات اعصاب کو پُرسکون کرنے کی تیکنیک سے کام لیتے ہیں۔ بعض افراد یہ آوازیں سُن کر خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے علاج کے لیے ماہر نفسیات انھیں آوازیں سنا کر ان کے دل و دماغ سے ان کا خوف نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم سب سے مؤثر طریقہ cognitive behavioral therapy ثابت ہوا ہے جس میں معالج آوازوں یا صورتحال کے بارے میں میزوفونیا سے متأثرہ فرد کی سوچ کا انداز تبدیل کرنے اور ان کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔