اکبر بگٹی اورشیر محمد مری کی باتیں

نادر شاہ عادل  جمعرات 27 جون 2019

بلوچستان کی قوم پرست سیاست کے نظریاتی نشیب و فراز پر ماضی میں طویل گفتگو اور بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ ان سینئر سیاستدانوں نے کی ہیں جن کی وسعت نظری و رفعت تزویری سے ہم نوجوان صحافی عموماً دور رہتے تھے، ہمارا کام ان کی پریس کانفرنسز، اخباری بیانات اور انٹرویو تک محدود تھا لیکن جن منجھے ہوئے صحافیوں اور بزرگ اہل قلم نے بلوچستان کے سلگتے مسائل پر نواب اکبر بگٹی ، سردار شیر باز مزاری ، میرغوث بخش بزنجو اور شیر محمد مری عرف جنرل شیروف سے سلگتے ہوئے سیاسی تنازعات ، مسائل،آئینی و قانونی اور ساحل و وسائل کے سیاق وسباق میں مکالمے کیے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

امریکی مورخ اور سیاسی تجزیہ کار سیلگ ایس ہیریسن کی کتاب In Afghanstan shadow: Baloch Nationalism and soviet temptations کا بڑا چرچا تھا، گرم پانیوں کی تپش اور سویت روس کے ’’بھالو ‘‘ کی بلوچ قوم پرستی کی تاریخی کشمکش سے دلچسپی کا موضوع ماضی کے اوراق کا اہم ترین مطالعاتی ٹاسک پایا۔ بہرحال ہم بلوچستان کے فکری دھارے سے دور ہوگئے، جو لوگ پہاڑوں پر چلے گئے ان کا نظریہ یا سیاست ، فکر اور فلسفہ و منطق سے کیا لینا دینا۔

جن قوتوں نے اس تاثرکو مضبوط کیا کہ بلوچستان کو ترقی دینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سردار یا قبائلیت کی بوسیدہ زنجیر ہے وہ بدستور بلوچستان کے بارے میں تاریخی شعور سے جنگ آزما ہے اور مرکزیت پسند پاکستانی سیاست اس بلوچستانی بیانیہ کو فروغ دینے میں مست و مگن ہے کہ سب ٹھیک ہے بس چند بلوچ سردار گڑ بڑکر رہے ہیں۔ جنرل مشرف کا تکیہ کلام کچھ اسی سے ملتا جلتا تھا ، مگر میں نے اپنی رپورٹنگ میں زمینی سیاسی حقائق کے برعکس بلوچ سیاست دانوں کے چند لیجنڈزکو مختلف پایا ۔

میری شناسائی نواب اکبر بگٹی سے ہوئی ، پھر سردار شیر بازمزاری نے سن سیٹ بلیوارڈ کے بنگلے میں صحافیوں کے ہمراہ گفتگوکا امکان پیدا کیا، مستونگ کے بابائے مکالمہ میر غوث بخش بزنجو سے میری ملاقات یوسف مستی خان کے فیروز آباد کی قدیمی رہائش اور عثمان بلوچ کے توسط سے ہوئی ، جنرل شیروف سے انٹرویو کے لیے سینئر صحافی صدیق بلوچ نے فون کیا کہ تیاری پکڑو ، صدیق بلوچ نے گرم دوپہر میں کینٹ اسٹیشن کے قریب بلوم لگژری ہوٹل میں بجھوادیا جہاں ایک کمرہ میں عمر رسیدہ جنرل شیروف صوفے پر نیم دراز تھے اور انھیں علاج کے لیے فرانس جانا تھا۔

یہ جنرل ضیاء الحق کے عہد آمریت کے جوبن کا زمانہ تھا۔ 1984ء کی بات تھی۔ ہوٹل بلوم لگژری پہنچا تو دو جواں سال سرمچار نیچے آئے، میرا تعارف نامہ لیا اور پھر مسکراتے اور دھیمے لہجے میں بلوچی سلام و دعا کرتے مجھے مری صاحب سے ملا دیا۔ وہ تپاک سے ملے، ماضی کا ایک سرفروش حال کے ایک مفکرکی حیثیت میں مجھے راز حیات و کائنات سے آگاہ کر رہا تھا، پاکستان کی بلوچ عسکریت اور سٹبلشمنٹ سے چشمک زنی کی داستان سنا رہا تھا ، مگر مری صاحب کو اندازہ تھا کہ صحافی نوجوان ہے، اس لیے اس سے لو پروفائل میں وہی باتیں کی جائیں جو اس وقت کے اخبار میں چھپ بھی سکیں۔

اس لیے بار بار کہتے کہ جوکچھ کہنا چاہتا ہوں کیا وہ کل شایع ہوسکے گا ، بڑی دلچسپ بات ہے کہ نواب اکبر بگٹی سے جب کوئٹہ میں ٹیپ ریکارڈر پرگفتگو چل رہی تھی مگر بگٹی صاحب ٹوکتے کہ چھاپیں گے کتنا ،آپ کا اخبار ضیا الحق کے بارے میں یہ سب کچھ کیسے چھاپے گا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔ اس وقت کینٹ اسٹیشن کراچی سے کچھ دور ایک ہوٹل میں ایک بڑے اخبار کا حوالہ تھا ، یونس ریاض نیوز ایڈیٹر تھے، نیوز انٹرویو تھا جب کہ مسئلہ بلوچ سیاستدان ، بلوچستان پر گذرے حالات اور میڈیا کے مابین بے اعتباری کا تھا، میرے لیے اس دن بھی اذیت اسی بات کی تھی کہ کون سی عینک لگا لوں کہ بلوچستان میں ہر شے مجھے گلابی ، سنہری اور پیاری لگے ، میں نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا تو کہنے لگے ’’ نوجوان ! بلوچستان میں زندگی پامال ہے ، لوگ معاش کو ترستے ہیں، ہمارے مویشی مر رہے ہیں ، افتادگان خاک سے جاکر پوچھو کہ بلوچوں کی حالت کیا ہوگئی ہے ‘‘ میں نے چونکہ پہلی بار افتادگان خاک کا لفظ ان کی زبان سے سنا تو باتوں باتوں میں ان سے ادب ، بلوچی شاعری اور کلاسیکی شعرا کے بارے میں پوچھا۔ سید ظہور شاہ ہاشمی کے قدر دان تھے، ان کے انتقال پر لیاری تشریف لائے تھے۔

پھر کیا تھا کہ انھوں نے سرمچار سے کہا کہ ’’ میرا بریف کیس لائو‘‘ وہ کتابوں سے بھری لائبریری ہی تھی، ایک کتاب تلاش کی، عنوان تھا Fourth parallelism مطلب پوچھا کہ ’’چوتھی متوازیت ہے کیا ‘‘ تو میں نے اپنی کم مائیگی اور جہالت کا کشکول سامنے رکھ دیا ، یہ کتاب میرے لیے مری صاحب کا دیا ہوا وہ قرض ہے جسے ادا کرنے کے لیے وہ لمحہ آج تک میسر نہیں آیا کہ اسے چکا سکوں۔ کہاںچلے گئے شیر محمد مری جنھوں نے کہا تھا کہ بلوچ سیاست پرکیا بات کریں، ہم سے پہاڑوں پر قسمیں کھانے والوں سے اب کس بات کا شکوہ کریں ۔کہنے لگے کہ کراچی کا اخبار میری باتیں کچھ سنے گا کچھ رد کردے گا اور جو گفتگو ہوگی اسے صبح میں اخبار میں چھپا دیکھوں گا تو حیران ہوں گا کہ قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم ۔ جنرل شیروف کی باتیں یاد رہیں گی۔اسد رحمن، شیروف صاحب کے انسائیکلو پیڈیا تھے۔

یہ سچ کڑوا ضرور ہے مگر سچ تو ہے نا کہ ہم قدر ناشناسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں، میڈیا میں ہماری نئی نسل آج وارث میر اور ارشاد احمد حقانی سے محروم ہے، وارث میرکا ورثہ یا حقانی صاحب کے وہ فکر انگیز کالم جو انھوں نے آمریت کی مزاحمت میں لکھے وہ کھرچے تو نہیں جاسکتے، حقانی سے اختلاف ان کی شخصیت سے ہوسکتا ہے مگر ان کے سنجیدہ اور بے باک کالم بہت کچھ ریکارڈ میں موجود ہے، صحافت کے آرکائیو سے کبھی ان اکابرین کی سوچ اور ان کی معروضات سے نئی نسل کا متعارف کرانا ضروری ہے۔ ان کا ورثہ مضمحل نہ ہوتا تو نوجوان نسل کے صحافی ان کے افکار اور تحریروں سے جلا پاتے۔

جن بلوچ سیاستدانوں سے ملکی سیاست اور باہمی دلچسپی کے امور پر میری گفتگو رہی وہ بالغ نظری پر مبنی سیاست کے ارتقائی عمل کو آگے بڑھاتے ہیں، مکالمہ ، نظریاتی سیاست اور جمہوری اور انسانی اقدار و مساوات کی باتیں کرتے ہیں ، یاد آیا سینئر صحافی لطیف بلوچ نے اس کالم کے لکھے جانے کے دوران ایک چشم کشا ایس ایم ایس بھیجا وہ قارئین کی نذر ہے، کہتے ہیں ’’ گلوں تک تو سہہ لیتے ہم ، اب تو کانٹوں پر بھی حق ہمارا نہیں ۔ہم نے وطن اور اہل وطن کا حق اپنے 40 سالہ عملی کردار سے ادا کردیا۔اب اہل وطن بھی اپنا فرض ، ہمارا واجب الادا قرض سمجھ کر ادا کریں ۔‘‘ در اصل بلوچ بیانیہ کے مابین ایک معتبر صحافتی اور ابلاغی وسیلہ جو ہونا چاہیے تھا، اسے رہنے نہیں دیا گیا، وہ شفاف تاریخی معروضیت جسے صحافت و سیاسی نظریات کے بین بین نصاب کا حصہ بننا چاہیے تھا اسے بلڈوزکردیا گیا، آج بظاہر بلوچ سیاست پر بات کرنا آزادی صحافت کے مروجہ تناظر میں اتنا آسان بھی نہیں۔

اب آئیے ۔ اپنے وقت و سیاسی منظر نامہ کے خوش گفتار نواب اکبر بگٹی کا کچھ بیاں ہوجائے۔ میری پہلی باضابطہ ملاقات بگٹی صاحب سے 1986 ء میں کوئٹہ میں ہوئی، خدائے نور صاحب گفتگوکے وقت موجود تھے۔ حالات بلوچوں کی نقل مکانی کے تھے۔ بگٹی صاحب نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خود پر اردو نہ بولنے کی پابندی لگا دی تھی۔ میں اسی لسانی مخمصہ میں ان کے سامنے ٹیپ کھولے بیٹھا تھا کہ ان کی آواز گونجی ،کوئی سوال اردو میں نہیں ہوگا، میری اردو لغت بھک سے اڑگئی، اب کیا ہو ، میں نے کہا نواب صاحب بلوچی ، انگریزی اور سندھی میں بات کی جائے، بگٹی صاحب کی سندھی بھی رواں تھی۔اجازت ملی کہ بلوچی اور انگریزی میں سوالات کریں، اس طرح یہ گفتگو جب مکمل ہوئی تو دو کیسٹیں بھری جاچکی تھیں۔

بگٹی صاحب طنزاً مسکراتے رہے،کہنے لگے ہو تو تم بلوچ اورکام کر رہے ہو پنجابی اخبار میں ، ٹیپ بھر لیا ، لیکن لکھوگے کیا، چھاپوگے کتنا ۔ پھر مسکرائے اور پوچھنے لگے مجید نظامی صاحب یہ سوال جواب چھاپ دیں گے۔ میں نے ایک رپورٹرکی محدود ذمے داری اور اخبارکی پالیسی کی آزادانہ روش کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کوشش ہوگی آپ کی پوری بات انٹرویوکی شکل میں ہو بہو آجائے۔ گفتگو ختم ہوئی ، بگٹی صاحب کے ساتھ کھانا کھایا،جناح روڈ سے نکل کر بلوچستان یونیورسٹی ہاسٹل میں پروفیسر صبا دشتیاری کے کمرے میں جاکر سوگیا۔ صبح صبا نے ناشتہ کرایا اور صوبائی سیکریٹری اطلاعات عطا شاد سے ملاقات ہوئی۔کئی شخصیات سے گفتگو ریکارڈ کی اورکراچی چلا آیا۔ صبح مجید نظامی صاحب کو فیکس کیا کہ بگٹی صاحب کا انٹرویو ارسال خدمات ہے، دیکھ لیجیے گا۔

بگٹی صاحب نے کہا ہے رپورٹر نے وقت برباد کیا اب دیکھنا ہے کہ نوائے وقت کیا چھاپتا ہے ؟ جب انٹرویو مکمل چھپا تو بگٹی صاحب کوئٹہ میں تھے ۔قائد اعظم کے مزار کے سامنے نوائے وقت کا دفتر تھا میں دفتر میں داخل ہوا تو تھوڑی دیر بعد ٹیلی فون آپریٹر جاوید نے اطلاع دی کہ فون پرکوئی بلوچ رہنما بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فون اٹھایا ہیلو ! آواز گونجی ’’ اکبر بگٹی بول رہا ہوں ۔‘‘ ’’جی ! بگٹی صاحب ،‘‘ میں نے بلوچی میں سلام کیا ، ان کا صرف ایک فقرہ سناتا ہوں۔ کہنے لگے ’’ مجید نظامی صاحب کوکیا ہوگیا ہے کیسے سب چھاپ دیا‘‘ پھر بلوچی زبان میں کہا کہ ’’یا من گنوک بوتگوں‘‘ مطلب یہ کہ کہیں میں تو دیوانہ نہیں ہوا۔ (باقی باتیں آیندہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔