- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
دُنیا کو بچانا ہے؟ تو پھر بیف چھوڑیں، چکن کھائیں
یہ بحث اکثر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ مرغ کا گوشت بہتر ہے یا پھر گائے کا۔ عام طور پر طبی معالجین بڑے گوشت سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے نقطہ نظر سے گائے بھینس کا گوشت انسانی صحت کے لیے مُضر اور چھوٹا گوشت مفید ہوتا ہے۔
مغربی محققین کی تازہ ریسرچ بھی مرغ کے حق میں گواہی دیتی ہے مگر اس کی بنیاد انسانی صحت کے بجائے ’ماحول کی صحت‘ پر ہے۔ دنیا بھر میں کئی عشروں سے جو ماحولیاتی مسئلہ سب سے زیادہ زیربحث ہے، وہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے۔ سائنس داں اور ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں جیسے جیسے اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرۂ ارض گرم ہوتا جارہا ہے۔ اس گرماؤ کے نتیجے میں عالمی آب و ہوا میں بہ تدریج بدلاؤ آرہا ہے۔
کہیں انسان پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں تو کہیں شدت سے بارشیں ہوتی ہیں۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ موسموں کے آنے اور جانے کے ایام تبدیل ہورہے ہیں۔ اور اس سب کی وجہ ہے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جس کے اخراج کے بے شمار ذرائع ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں، صنعتوں اور گاڑیوں کے علاوہ یہ گیس جانور اور انسان بھی خارج کرتے ہیں۔
ییل یونی ورسٹی، بارڈ کالج اور ویزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس کے محققین کی مشترکہ ٹیم کی تحقیق کا موضوع مرغ اور گائے کا گوشت کھانے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج تھا۔ تاہم تحقیق میں صرف جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نہیں بلکہ مرغیوں اور مویشیوں کی افزائش، دیکھ بھال سے جڑے تمام پہلووں کے کاربن کی پیدائش میں کردار کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا۔
تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ بیف کے مقابلے میں چکن کھانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نصف رہ جاتا ہے۔ چناں چہ آپ محض گائے، بھینس کے گوشت کو خیرباد کہہ کر گلوبل وارمنگ کے ہاتھوں تباہی کے ممکنہ خطرے سے دوچار دنیا کو بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق روزمرہ معمولات میں تھوڑا سا بدلاؤ لاکر ہم ماحولیاتی تبدیلی سے جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تحقیق کہتی ہے کہ گائے بھینسوں کو پالنے پر خرچ ہونے والی توانائی، کھاد اور اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین مرغ بانی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہونے کا باعث بنتی ہے، لہٰذا ماحولیات کے اعتبار سے مر غ کے گوشت کا استعمال زیادہ مفید ہے۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سنگین صورت اختیار کرتی جارہی ہے لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دنیا کی آبادی لگ بھگ نو ارب تک پہنچ چکی ہے۔ اگر نصف آبادی بھی اپنی خوراک میں چارپایوں کا گوشت کم کردے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔