پیٹ کے کیڑوں سے نجات

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 29 جون 2019
barq@email.com

[email protected]

ہم کوئی نسخہ نہیں بتا رہے ہیں بلکہ یہ خبر سنارہے ہیں کہ محکمہ صحت خیرپخیر نے جو محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر پیٹ کے کیڑوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک ’’باضابطہ پروگرام‘‘بنایا ہے اور اس کا آغاز بھی کردیا ہے۔

یہ تو ہم نہیں جانتے کہ ’’باضابطہ‘‘کا اخباری مطلب کیاہوتا ہے، سرکاری مطلب کیاہوتا ہے، اشتہاری معنی کیا ہوتے ہیں اور حقیقت کاری کا کیا مفہوم ہوتا ہے کیونکہ ہم صرف ’’ترکاری‘‘  لوگوں میں سے ہیں۔لیکن پیٹ کے کیڑوں کے معاملے میں یہاں وہاں سے بہت کچھ سن رکھا ہے ان کی دواؤں کے بارے میں بھی تھوڑا بہت سنا ہے جو بہت جلد بازار میں پہنچنے والی ہیں اور شاید ’’باضابطہ‘‘کا ایک مطلب یہ بھی ہو کہ چیز کو ایک ضابطے کے تحت وہاں پہنچایا جائے جہاں اس کو پہنچنا ہوتا ہے۔

کچھ اطباء،حکماء ڈاکٹر وغیرہ کے مطابق پیٹ کے کیڑوں کی بہت ساری اقسام اورخواص بلکہ درجات ہوتے ہیں جسے سرکاری محکموں میں یا سیاست میں گریڈہوتے ہیں ان میں زیادہ گریڈ فور سے آٹھ دس تک’’چمونے‘‘کہلاتے ہیں جو ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ’’خون‘‘بھی زیادہ چوستے ہیں۔

ہاں ہم نے بتایا نہیں کہ پیٹ کے کیڑے صرف خون چوستے ہیں اور خون کے سوا کچھ نہیں چوستے، چناں چہ آدمی یہاں وہاں سے کچھ جتن کرکے کھالیتاہے اور اس کا خون بنتاہے تو یہ کم بخت کیڑے بدن تک پہنچنے سے پہلے ہی چوس لیتے ہیں جس سے امراض زرد پیلا پڑجاتاہے آنکھیں باہرکونکل آتی ہیں پیٹ پھول جاتاہے یہاں وہاں سے طاقت کی دوائیاں لے کر کھاتاہے کام کرنے کے قابل نہیں رہتا،چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتاہے اور کسی جگہ چوراہے پرلیٹ کر اور اپنا پھیلا پھولا پیٹ کے کیڑوں کا علاج مانگنے لگتاہے۔پیٹ کے کیڑوں کا علاج بھی موجود ہے اور دوائیاں بھی لیکن افسوس کہ ان دواؤں میں ’’ملاوٹ‘‘ ہوجاتی ہے یاکہیں اور بیج دی جاتی ہیں۔

اب کے صوبائی محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم نے مل کر جو ’’باضابطہ‘‘پروگرام پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے لیے شروع کیا اس کی ہم تعریف کریں گے لیکن مسئلے میں ایک بہت بڑا ٹوسٹ یہ ہے کہ اگر دونوں محکموں نے حسب روایت حسب عادت اور حسب ضرورت یہ کام ایک دوسرے کے ’’بھروسے‘‘پر چھوڑ دیا تو؟۔

کیونکہ پاکستانی محکموں میں ایک دوسرے پر ’’بھروسہ‘‘ کرنے کی روایت کافی پرانی اور مضبوط ہے لیکن یہ بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اس ’’کام‘‘کے لیے یقینا ً’’باہر‘‘سے اتنا کچھ آگیا ہوگا کہ دونوں محکموں کا ایک دوسرے پر ’’بھروسہ‘‘  کافی مضبوط ہوگا۔مسئلہ تو تب ہوتا جب ’’چیز‘‘کم ہو اور کھانے والے زیادہ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ پروگرام یقیناً کہیں دور اور اوپر سے تمام ’’لوازمات‘‘ کے ساتھ آیاہوگا اور وہ بہت دور اور اوپر والے اپنے کام میں اتنی گنجائش ضرور رکھتے ہیں جس سے ’’گلشن کا کاروبار‘‘چلے کہ اصل میں ان کا مدعا ہی ’’گلشن کا کاروبار‘‘چلانا ہوتاہے کہ خود گلشن میں تنگی داماں کا علاج ہرگز پیدا نہ ہوجائے اور دامن میں زیادہ سے زیادہ’’چھید‘‘ ہوں۔مگر اصل مسئلہ یہ بھی نہیں اس پروگرام بلکہ ’’باضابطہ‘‘پروگرام میں صرف بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے نجات دلانا شامل ہے جب کہ خطرہ بچوں کے پیٹ سے نہیں بلکہ بڑوں بلکہ بڑے بڑے پیٹوں سے ہے۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں اور بہت اچھی طرح اور وہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو شدید خطرہ چھوٹے پیٹوں سے نہیں بلکہ بڑے ’’پیٹوں‘‘ سے ہے جن میں محکموں کے بڑے بڑے پیٹ۔اور پھر ان میں بڑے بڑے پیٹ شامل ہیں۔مسئلہ یہاں تک ہوتا تو کوئی بھی خدا کا بندہ مہربان ہوکر ان کو پیٹ کے کیڑوں کی دوا کھلایا پلا دیتا۔لیکن مسئلہ گھمبیر اس لیے ہے کہ انٹ شنٹ دواؤں،عطائی معالجوں اور نقلی ڈرگز نے ان کیڑوں کو بہت ریزسٹ کیا ہوا ہے۔

اقسابومائی سین،کرلیسنا مائٹ اور طرح طرح کی مائی سین وغیرہ کے ساتھ یہ کیڑے اتنے مانوس بلکہ عادی ہوگئے ہیں کہ اب اس قسم کی دوائیں ان کے ٹانک بن جاتی ہیں بلکہ سنا ہے کہ اینٹی وارم دوائیں جیسے ’’نیوسین‘‘ریبوسین اور کورٹس سین دواؤں میں بھی یہ کیڑے پڑجاتے ہیں۔ہم نے خود ایک ایسے مریض کو دیکھاہے جس کی عمر لگ بھگ سترسال ہے لیکن دماغ ابھی بھی دو تین سال کے بچے کاہے، پیٹ اتنا بڑا ہے کہ خود اس سے ’’اربوں فٹ‘‘آگے چلتاہے اور اس کا المیہ ہی غلط سلط دواؤں اوراتائیوں سے علاج کرانا ہے۔

ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ اس کے پیٹ میں کیڑوں کی اتنی اقسام ہیں جتنی اقسام پوری دنیا میں کیڑوں کی نہیں ہوں گی،معالج آتے ہیں دوائیں دیتے ہیں وہ دوائیں پیٹ میں پہنچ کر کیڑوں کی خوراک بن جاتی ہیں جس سے وہ اور بھی زیادہ ’’صحت مند‘‘ہوکر مریض کا اور زیادہ خون چوسنے لگتے ہیں بلکہ اب تو بیچارے کا گزارہ صرف بلڈڈونیشن پر چل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔