حکومت ، اپوزیشن اور عوام

عبدالقادر حسن  ہفتہ 29 جون 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اے پی سی کے اعلان کے بعد حکومت کو پریشانیاں لاحق ہو گئی تھیں اور درپردہ اس بات کی کوششیں کی گئیں کہ اے پی سی کے انعقاد کو روکا جا سکے۔ اے پی سی کے روح رواں مولانا فضل الرحمٰن سے اس سلسلے میں ملاقاتیں بھی کی گئیں مگر مولانا اپنی بات پر ڈٹے رہے اور بالآخر اے پی سی منعقد ہو ہی گئی۔ حکومت کی اتحادی پارٹیوں نے حکومت کا ساتھ دیا جب کہ حکومت مخالف جماعتوں نے اے پی سی کے اجلاس میں شرکت تو کی لیکن وہاں پر کوئی ایسااتفاق دیکھنے میں نہیں آیا جس کی مولانا کو توقع تھی۔

جماعت اسلامی نے اپوزیشن کے اس مختصر اجتماع میں پہلے ہی شرکت سے معذوری ظاہر کی تھی۔ اس اجتماع سے حکومت جس قدر گھبرا گئی تھی اس کے نتائج اس کے لیے اتنے ہی حوصلہ افزاء ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھنے کے باوجود حکومت مخالف کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکیں اور سب شرکاء اپنی اپنی سنا کر رخصت ہو گئے۔ اپوزیشن کی پارٹیوں کی اپنی اپنی الگ سیاست ہے اور وہ مختلف طبقوں کی نمایندگی کرتی ہیں سب کے اپنے مسائل اور ترجیحات ہیں اس لیے ان کا کسی ایک نقطے پر متفق ہونا ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے اور وہی ہوا کہ سوائے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے حکومت مخالف تحریک کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی۔

اپوزیشن کی بے جان اور پھس پھسی اے پی سی کے بعد حکومت کی سانس بھی بحال ہوئی اور اقتدار کے محفوظ گوشوں میں مقید سیاستدان جو اپوزیشن سے حکومت مخالف کسی بڑی تحریک کے اعلان پر کپکپکارہے تھے ان کی کپکپی بھی ختم ہوگئی بلکہ انھوں نے اب بڑھ چڑھ کر اپوزیشن پر جوابی حملے بھی شروع کر دیے ہیں لفظی جنگ کا تبادلہ جاری ہے۔ اپوزیشن کے اس اجتماع میں اگر کسی نے توجہ حاصل کی تو وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور نواز لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کی شخصیات تھیں جو میڈیا کے کیمروں کی توجہ کا مرکز رہیں لیکن ان کی اس اجتماع میں نمایندگی سے بھی اپوزیشن کی صفوں میں وہ اثر پیدا نہیں ہو سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔

حکومت کی اگر بات کی جائے تو اپوزیشن کے اس ابتدائی اجلاس سے ہی حکومت کی ٹانگیں لڑکھڑانے کا احساس ہو رہا تھا اور ان کے دفاعی بیانات سے تو لگتا ہے کہ ان کی اپوزیشن جیسی بھی ہے اس سے گھبرانے لگے ہیں ۔شائد یہ ان کی سیاسی ناتجربہ کاری ہے اور ان کے غیر سیاسی رویے کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت تو اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ ان کی صف اول کی لیڈرشپ نیب کی قید میں ہے اور الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے وہ اپنی لیڈر شپ کی قید وبند اور کمزوریوں کے باوجود حکومت پر حملہ آور ہونے کے لیے صف بندی کر رہے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کو ان کی کمزرویوں کی وجہ سے ان پر حملہ آور ہونے کی ضرورت ہے اپوزیشن کے حملوں کے دفاع کا موقع تو ابھی نہیں آیا ابھی تو اپوزیشن کی جانب سے آغاز ہوا ہے حکومت کی جانب سے دفاعی حکمت تو روانگی سے پہلے ہوتی ہے۔

آج کل مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان کی یاد بار بار آرہی ہے اور اس کی وجوہات میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ وہ آج تک پاکستان کی تاریخ کے واحد اپوزیشن رہنما تھے جن کی سیاسی حکمت عملی پر بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین بلا چون و چراں لبیک کہتے تھے ۔ ان کے اپوزیشن اتحاد کا فلسفہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ کم از کم نکات پر اتفاق پیدا کیا جائے۔ لیکن اگر آج کی اپوزیشن کو دیکھا جائے تو مجھے کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جس پر اپوزیشن کی بڑی پارٹیاں تو کجا کوئی چھوٹی پارٹی بھی متفق ہو سکے۔ یہ ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد یا مفاداتی اشتراک ہے جس میں قد آور سیاستدانوں کے بجائے مطلب پرست سیاستدان موجود ہیں جب کہ شہباز شریف کے علاوہ کوئی ثقہ سیاستدان مجھے تو اس اتحاد میں نظر نہیں آیا۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں یا ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا، گو مگو کی کیفیت میں ہیں اور اپنی صفوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام اپنے ان لیڈروں کی حکومت بھی دیکھ چکے اور ان کو اپوزیشن میں پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور اب بھی دیکھ رہے ہیں اس لیے عوام اور لیڈر ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہیں البتہ ایک بات ضرور سامنے آئی ہے کہ عوام کے یہ لیڈر عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں  اس لیے اپوزیشن کے ان رہنماؤں کو عوام کو اپنے ساتھ چلانے کے لیے لاکھوں جتن کرنے ہوں گے۔

عموماً اپوزیشن کا کام حکومت خود آسان کرتی ہے یعنی حکومت عوام مخالف پالیسیاںبناتی ہے جن میں عوام کے لیے حکومتی سطح پر مہنگائی میںاضافہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال اب بھی بن رہی ہے لیکن اپنے لیڈروں کے ہاتھوں کئی بار کے ڈسے ہوئے عوام ابھی تک اس موڈ میں نظر نہیں آتے کہ وہ حکومت مخالف اٹھ کھڑے ہوں اور اپوزیشن کا دست بازو بن جائیں۔

حکومت کواپوزیشن کے ان دست بازو بن جانے والے عوام کے لیے کچھ سوچنا ہو گا کیونکہ یہ کہہ دینا کافی نہیں رہا کہ ملکی معیشت کے حالات کی وجہ سے مہنگائی بڑھی رہی ہے اس بڑھتی مہنگائی کو روکنے کے لیے اپوزیشن نے نہیں بلکہ حکومت نے اقدامات کرنے ہیں اپوزیشن تو حکومت کی کمزوریوں کو عوام کو حکومت مخالف تحریک کا ایندھن بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ کام حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے حملوں کا دفاع بھی کرے اور عوام کو بھی مطمئن رکھے تاکہ وہ متحدہ اپوزیشن کا ایندھن بننے سے انکار کر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔