حب الوطنی کا تقاضا، ظالمانہ نظام کا خاتمہ

نجمہ عالم  ہفتہ 29 جون 2019
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

ہر باشعور اور صاحب الرائے شخص ملکی معاشی صورتحال، کرپشن اور ٹیکس ادائیگی کے بارے میں حکومت اور اقتصادی ماہرین کو اپنی اپنی پرخلوص تجاویز پیش کر رہا ہے، مگر کیونکہ وہ خود ’’ماہرین‘‘ ہیں تو بھلا وہ کسی کی تجویز کو کیسے تسلیم کر لیں یہ تو ان کی مہارت پر حرف آنے والی بات ہے۔

بہرحال نئے پاکستان کو وجود میں آئے دس ماہ کا عرصہ ہو گیا۔ نئے پاکستان کے بارے میں کیے گئے بڑے بڑے تو کیا چھوٹے دعوے بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ کل میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے سو روزہ منصوبوں پر نظر ڈال رہی تھی اور ان کو نشان زدہ کرتی جا رہی تھی کہ ان میں سے کون کون سے دعوے روبہ عمل ہو چکے ہیں تو انکشاف ہوا کہ اسی فیصد کے برخلاف ہی کچھ ہوا ہے یعنی بیشتر پر یوٹرن لیا جا چکا ہے ہاں ہر روز کوئی نہ کوئی زبانی اعلان ضرور ہو جاتا ہے کہ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے۔ جب کسی ایک پر بھی عمل ہو جائے گا تو پوری قوم نوافل شکرانہ ادا کرے گی۔

ابتدا میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کے بارے میں ہر شخص کوئی نہ کوئی رائے (اپنی بساط کے مطابق) پیش کرتا ہے قابل عمل بھی اور نہ قابل قبول بھی۔ علی احمد ڈھلوں نے اپنے کالم میں بھی کرپشن کی روک تھام اور ٹیکس ادائیگی کے بارے میں خاصی قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔

اب اگر کچھ کرنے کا عزم ہو، اگر عمل میں خلوص اور نیک نیتی ہو تو یہ تجاویز بہت اچھی ہیں اور مزید بہتر تجاویز اور بھی سامنے آ سکتی ہیں، لیکن برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے صرف دو چار شاخیں کاٹ کر وہ بھی صرف وہ شاخیں جن کے سائے میں غریب کچھ دیر کو سستا لیتے ہوں اور پورا درخت جس کا تنا، شاخیں، پتے، پھول، پھل، سایہ سب ’’اشرافیہ‘‘ کے تصرف میں ہو، ہر شاخ سے وہ بیک وقت کئی کئی فوائد حاصل کرتے ہوں ان کو چھوڑ دیا جائے تو بھلا اصل مقصد کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ لہٰذا صورت حال بتا رہی ہے کہ کرپشن اور ٹیکس چوری کا شور مچا کر صورتحال درست کرنے کی نیت ہی نہیں کیونکہ کھربوں کی کرپشن اور کروڑوں کے ٹیکس غریب عوام یا متوسط طبقے کے فراڈ کا معاملہ تو ہے نہیں، تنخواہ دار کو تو تنخواہ ہی ٹیکس کٹ کر ملتی ہے۔

ٹیکس کیوں پوری طرح ادا نہیں کیا جا رہا؟ وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت میں خود ایسے افراد موجود ہیں جن کے اثاثے ان کی ظاہری آمدنی سے مناسبت نہیں رکھتے۔ پھر ہماری سیاست ہر دور میں اور ہر جماعت کے برسر اقتدار آنے میں پس پشت وڈیرے، جاگیردار اور بڑے بڑے صنعتکار کارفرما رہے ہیں۔ ان کا کردار ہی اصل حکمرانوں کا فیصلہ کرتا ہے، جو بھی جماعت بڑے بڑے جاگیرداروں، وڈیروں اور پیروں کی آشیرباد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے باالفاظ دیگر ان کی شرائط کے مطابق اپنی حکومتی پالیسیاں بنانے پر رضا مند ہو جاتی ہے وہی مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہو سکتی ہے۔ یہ سیاسی چلن بدلا نہیں۔

موجودہ حکمران جماعت میں بھی ایسے افراد جو اپنے علاقے کے خود بااثر فرد ہیں یا جن کی پشت پر ان بڑوں کا ہاتھ ہے خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے الیکٹیبل، کئی کئی بار ممبران قومی اسمبلی رہ چکنے والے اپنی اپنی شرائط پر اس پارٹی میں انتخابات سے چند ماہ کچھ روز قبل تک شامل ہوتے رہے (جس کی عمران خان سختی سے مخالفت کرتے رہتے تھے) اور کامیابی کے بعد عہدے وزارتیں حاصل کیں۔ تو یہ سوچنا کہ نیا پاکستان وجود میں آ چکا ہے یا ریاست مدینہ قائم ہو رہی ہے ایک سنہری خواب کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

دیکھا جائے تو نیا پاکستان معرض وجود میں آئے دس ماہ ہو چکے ہیں (جو 9 دن میں 90 فیصد مسائل حل کر رہے تھے وہ اب کہتے ہیں کہ ہمیں وقت دیا جائے) آپ فرمائیں گے کہ کیا نیا ہوا؟ تو صاحب محض اعتراض یا مخالفت نہ کیجیے بلکہ کچھ غور بھی فرمائیے، کچھ کیسے نہیں ہوا؟ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند تر سطح پر پرواز کر رہی ہے، ماضی کی حکومتیں پانچ سال میں جتنا قرض لیتی تھیں نئی حکومت نے دس ماہ میں اس سے کئی گنا زیادہ قرض حاصل کر لیا ہے، گورنر، وزرا، صدر اور خود وزیر اعظم کے اخراجات میں اضافہ ہوا (کفایت شعاری و سادگی یہی تو ہے) اخراجات میں اضافہ اور آمدنی میں نئے پاکستان میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔

ٹیکس ادائیگی پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی (اور یہ خواب خواب ہی رہا کہ ایماندار حکمران ہوں گے تو لوگ زیادہ ٹیکس دیں گے) معاشی نمو پہلے سے آدھی بھی نہیں ہوئی، روزگار دینے کا وعدہ یوں وفا ہوا کہ بے روزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوا، قرض میں بے تحاشا اضافہ صرف دس ماہ کی مدت میں ہوا۔ ڈالر تقریباً 163 روپے تک پہنچ گیا۔ مشیر خزانہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں روپے کی قدر کو سنبھالنا مشکل ہے۔ اس پر مستزاد وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ انھوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، ان کے خیال میں معیشت میں استحکام آچکا، مشکل وقت گزر گیا اور ملک ترقی کی راہ پر چل نکلا ہے (سبحان اللہ) تو کیا یہ سب نیا نہیں؟

حکومت بقول حزب مخالف عوام دشمن بجٹ منظور کرانے کی حکمت عملی طے کر رہی ہے مگر ہمارے خیال میں بجٹ سے پہلے اگر محب وطن مخلص حکومت ایوان سے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا بل منظور کروا لے تو بہت کچھ بلکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ وہی سیاسی جماعت اقتدار کی حق دار اور محب وطن قرار پائے گی جو اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کا بل ایوان سے پاس کروائے گی۔ تبدیلی کا نعرہ اس وقت تک بے معنی ہی رہے گا جب تک یہ نظام موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔