’’پلاسٹک شہریوں کی غذا کا حصہ بننے لگا‘‘

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 29 جون 2019
پلاسٹک کی بوتلیں،تھیلیاں اورتھرمو پول کی پلیٹیں،چمچ، لنچ باکس اور اسٹرا سے پلاسٹک کھانے کاحصہ بن ر ہی ہے،پلاسٹک مچھلیوں کی خوراک کا حصہ بن جاتی ہے۔ فوٹو:فائل

پلاسٹک کی بوتلیں،تھیلیاں اورتھرمو پول کی پلیٹیں،چمچ، لنچ باکس اور اسٹرا سے پلاسٹک کھانے کاحصہ بن ر ہی ہے،پلاسٹک مچھلیوں کی خوراک کا حصہ بن جاتی ہے۔ فوٹو:فائل

کراچی: عالمی ماحولیات کے ساتھ پلاسٹک کی آلودگی پاکستان کے لیے خطرناک صورتحال اختیار کرگئی اور شہر قائد سمیت ملک بھر میں ایک ہفتے کے دوران اوسطاً 5گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے جوکہ ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر ہے۔

ڈبیلو ڈبیلو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن سے متعلق تازہ تحقیق جاری کی ہے،جو یونیورسٹی آف کاسل آسٹریلیا کے طلبا نے عالمی ماحولیات کے حوالے سے تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی ماحولیات کے ساتھ پلاسٹک کی آلودگی پاکستان کے مجموعی ماحول کے لیے بھی خطرنات شکل اختیار کرگئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی شدید متاثر ہورہا ہے،ایک ہفتے میں پلاسٹک کے 2ہزار چھوٹے ٹکڑے انسانی خوراک میں شامل ہورہے ہیں،جوکہ اوسطا 5گرام پلاسٹک ایک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے،اوراس 5گرام پلاسٹک کا حجم ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر ہے۔

رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی آلودگی کے سبب ہوا،پانی اورمٹی کا معیار بری طرح متاثر ہورہا ہے،رپورٹ کے مطابق انسانی خوراک میں شامل ہونے والا مائیکروپلاسٹک مہینے بھر میں اوسطاً 21گرام جبکہ پورے سال کے دوران لگ بھگ 250 گرام کے برابر ہے۔

ڈبلیو ڈبلیوایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر محمد معظم خان کے مطابق مختلف تجزیاتی رپورٹ سے یہ بات عیاں ہے کہ پلاسٹک جوکہ معاشرے میں اشیا ئے خورونوش اور دیگر کی نقل وحرکت جبکہ فاسٹ فوڈ کھانوں میں اس کا بے دریغ استعمال ہولناک شکل اختیار کرچکا ہے،ان کا کہناہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300پیس مائیکرو پلاسٹک کے رپورٹ ہوئے ہیں۔

مائیکروپلاسٹک سے آبی جانوربھی متاثرہورہے ہیں،جبکہ اس عمل کی وجہ سے سمندر کے آبی ماحول پر بھی بہت ہی زیادہ منفی اور نقصان دہ اثرات مرتب ہورہے ہیں، محمد معظم خان کے مطابق ہوا،پانی،نمک جبکہ براہ راست غذا کے ذریعے پلاسٹک انسانی خوراک میں شامل ہورہا ہے،جس کا سب سے بڑا ذریعہ پانی کے لیے استعمال ہونے والی پانی کی بوتلیں،تھیلیاں،پلاسٹک اور تھرمو پول سے بنی کھانے کی پلیٹیں،چمچ اور لنچ باکس اورکولڈ ڈرنک کے اسٹرا سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔

واضح رہے کہ کولڈرنک کے اسٹرا کچھ عرصہ قبل تک کاغذ سے بنائے جاتے تھے،مگراب وہ بھی پلاسٹک سے بنے استعمال ہو رہے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر کے مطابق پلاسٹک کا استعمال عام اشیا جیسے موبائل فون،ٹیلی وژن،فرنیچر اورگھریلو اشیا میں تو انسانی صحت کے لیے مضر نہیں ہے،مگر جب یہی پلاسٹک براہ راست انسانی خوراک کے سسٹم میں شامل ہوجائے تو اس کی انتہائی بھیانک اثرات ہیں،یہ پلاسٹک سمندر برد ہونے کے بعد مائیکرو پلاسٹک کی شکل میں سمندری کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنتا ہے،جسے بعدازاں مچھلیاں اور دیگر آبی مخلوق نگل جاتی ہے،جس سے یہ انسانی خوراک کا حصہ بن جاتاہے۔

محمد معظم خان کے مطابق ملک کے 10بڑے شہروں میں پلاسٹک کے اثرات بد کے حوالے عوامی آگاہی کے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔