ایسے کیسے ورلڈکپ جیتیں گے

سلیم خالق  اتوار 30 جون 2019
اگر آپ کو کوئی بڑا ایونٹ جیتنا ہو تو سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اگر آپ کو کوئی بڑا ایونٹ جیتنا ہو تو سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان اور افغانستان کے میچ میں کون سی ٹیم فیورٹ ہوگی،گذشتہ دنوں جب ایک ٹی وی شو میں میزبان نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے اپنی ٹیم کا نام لیا، ساتھ یہ بھی کہا کہ ورلڈکپ میں ساتوں میچز ہارنے والی افغان سائیڈ سے مجھے کسی اپ سیٹ کی توقع نہیں۔

شکر ہے میں غلط ثابت ہوتے ہوتے رہ گیا، جن بچوں نے ہمیں دیکھ کر کرکٹ کھیلنا سیکھی آج شرمندگی کا شکار کرنے والے تھے، وہ تو بھلا ہو عماد وسیم اور  وہاب ریاض کا جنھوں نے اعصاب قابو میں رکھتے ہوئے ٹیم کو فتح دلا دی، شکست میں افغان ٹیم کی ناقص فیلڈنگ کا بھی اہم کردار رہا جس نے کیچز ڈراپ کرنے کے ساتھ کافی اضافی رنز بھی دیے۔

میچ میں ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ وہی پاکستانی سائیڈ ہے جو جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کو مات دے کر ورلڈکپ میں واپس آئی، اگر ہم ہار جاتے تو اس میں سب سے بڑا کردار امام الحق کا ہوتا جنھوں نے نجانے کیا سوچ کر کریز سے نکل کر احمقانہ شاٹ کھیلتے ہوئے وکٹ گنوائی، ان سے پہلے فخر زمان تو دوسری ہی گیند پر چلتے بنے تھے،اوپنرزکی فارم پاکستان کیلیے  باعث تشویش ہے۔

سلیکشن کمیٹی نے عابد علی کو وطن واپس بھیج کر غلط فیصلہ کیا جو اب  مشکلات بڑھا رہا ہے، بابراعظم  نے ایونٹ میں بہترین کھیل پیش کیا لیکن افغانستان کیخلاف وہ لیگ اسٹمپ محفوظ نہ رکھ سکے، اگر ٹیم کسی ایک کھلاڑی پر انحصار کرے تو ایسا ہی ہوتا ہے، بابر کے آؤٹ ہونے سے سب حواس باختہ ہو گئے،محمد حفیظ اتنے سینئر کھلاڑی ہیں لیکن مشکل وقت میں ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، اس میچ میں بھی ایسا ہی ہوا، حارث سہیل بھی گذشتہ دونوں میچز کی کارکردگی کا سلسلہ برقرار نہ رکھ سکے۔

سرفراز کو کیپٹن اننگز کھیلنا چاہیے تھی مگر وہ بھی رن آؤٹ ہو گئے،جب  156 رنز پر 6 وکٹیں گریں تو ناکامی یقینی نظر آ رہی تھی مگر عماد وسیم کو ہیرو بننے کا موقع ملا جس سے انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، ہمیں شاداب خان کو بھی سراہنا چاہیے  جنھوں نے رنز تو صرف 11 بنائے مگر عماد کے ساتھ نصف سنچری شراکت سے ٹیم کو فتح کی راہ پر واپس لے آئے، باقی کا کام عماد کے ساتھ وہاب نے سنبھال لیا اور وارم اپ میچ کی تاریخ نہ دہرائی جا سکی۔

افغانستان نے ہمیں بہت پریشان کیا اور اب یہی سوچ کر ڈر لگ رہا ہے کہ بنگلہ دیش کیخلاف کیا ہو گا جو اچھی فارم میں ہے،افغان ٹیم سے میچ میں مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ 200 سے زائد رنز بنے تو مشکل ہوگی اور ایسا ہی ہوا، بہرحال اس مقابلے سے ہمیں اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ کہاں کھڑے ہیں، عوام کو بھی ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں،اس میچ  میں شائقین کے جذبات بھی عروج پر رہے۔

پاک بھارت مقابلے سے قبل منتظمین کو خدشہ تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک میں سیاسی کشیدگی کا اثر کہیں میچ پر بھی نہ پڑے، مگر میں نے خود 16 جون کو مانچسٹر میں وہ میچ دیکھا کہیں کوئی معمولی سا بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا، دونوں ممالک کے شائقین نے  بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، مگر اب ورلڈکپ کو شروع ہوئے ایک ماہ مکمل اور37میچز ہو چکے، اس دوران پہلی بار کسی وینیو کے باہر بدمزگی دیکھی گئی۔

افغان شائقین پاکستانیوں سے گتھم گتھا ہوئے اور بھی کئی غلط حرکات کیں، ایسا محسوس ہواکہ کرکٹ میچ نہیں کسی جنگ کا ماحول تھا،اس سے  پہلے افغان بورڈ آفیشل نے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ کرکٹ میں مدد کرنے کو تیار ہیں‘‘، میں نے ایک بھارتی ٹی وی پروگرام کی ویڈیو دیکھی جس میں افغان شائق پاکستان کیخلاف بات کرتے ہوئے میزبان سے کہتا ہے کہ ’’انڈیا افغانستان بھائی بھائی‘‘،افغان پلیئرز بھی زیادہ اچھے رویے کا مظاہرہ نہیں کرتے، اس نفرت کا بیج بھارت نے بویا جس نے پہلے بنگلہ دیش اور اب افغانستان کو بھی پاکستان کا دشمن بنا دیا۔

میں سیاسی باتیں نہیں کرتا لیکن کرکٹ میں ان دونوں ممالک پر پاکستان کے بڑے احسانات ہیں، یہ کلب ٹیموں سے میچز کھیلنے یہاں آیا کرتے تھے، بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں پی سی بی کا اہم کردار تھا، افغان کرکٹرز نے کھیلنا ہی ہمارے ملک میں شروع کیا تھا، مگر اب  دل میں اتنی بغض نجانے کیوں آ گئی؟ آپ بھارت سے دوستی رکھیں مگر اپنے محسنوں کو تو فراموش نہ کریں۔

اس معاملے میں پی سی بی بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جب افغان بورڈ آفیشل نے متنازع بیان دیا تو انھیں جواب تو دینا چاہیے تھا،برطانوی ایم ڈی وسیم خان بار بار فیملی سے ملاقات کیلیے انگلینڈ جانے کے بجائے افغان اور بنگلہ دیشی بورڈز سے رابطے کریں  تاکہ تعلقات میں تلخی کم ہو سکے، پاک بھارت کشیدگی کے باوجود بھی دونوں بورڈز میں مثالی روابط رہتے تھے، وہ تو گذشتہ کچھ برس میں وہاں انتہا پسندی مزید بڑھنے پر بی سی سی آئی نے اب محتاط رویہ اپنا لیا ہے۔

خیر دیکھتے ہیں کہ یہ نفرتیں کیسے کم ہوں گی، فی الحال تو ہمیں اپنی ٹیم کی فکر کرنا چاہیے جس کی کارکردگی میںبالکل ہی تسلسل نہیں، ہماری ورلڈکپ مہم2 کھلاڑیوں کے گرد گھوم رہی تھی، ایک محمد عامر اور دوسرے بابر اعظم، بھارت سے میچ کے بعد اس فہرست میں حارث سہیل اور اب شاہین شاہ آفریدی بھی شامل ہو گئے، مگر بدقسمتی سے گذشتہ دونوں میچز میں عامر کی بولنگ میں وہ کاٹ نظر نہیں آئی۔

اگر آپ کو کوئی بڑا ایونٹ جیتنا ہو تو سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، فی الحال پاکستانی ٹیم میں ایسا نظر نہیں آ رہا، وہ تو آخری میچ میں عماد وسیم ڈٹ گئے تو فتح حاصل ہو گئی ورنہ شائقین کے درمیان اتنے ٹینشن کے ماحول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، خیر اب سیمی فائنل میں رسائی کیلیے بنگلہ دیش کو ہرانا ہوگا مگر اس کیلیے کارکردگی میں بہت زیادہ بہتری درکار ہے، ایسا کھیل پیش کریں گے تو حریف ٹیم قدم جمانے کا موقع نہیں دے گی،دیکھتے ہیں کوچز کھلاڑیوں  کی خامیاں دور کرنے میں کامیاب رہتے ہیں یا نہیں۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔