’’وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام‘‘ زراعت کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے

رضوان آصف  بدھ 3 جولائی 2019
پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور ان کا بالواسطہ اور بلا واسطہ معاشی تعلق زراعت سے ہی منسلک ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور ان کا بالواسطہ اور بلا واسطہ معاشی تعلق زراعت سے ہی منسلک ہے۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  پاکستان کی معیشت کا انحصار ہمیشہ سے زراعت پر رہا ہے اور اگر کسی حکمران نے صنعتوں کی جانب زیادہ توجہ مرکوز کی بھی تھی تو وہ ایسی صنعتیں ہیں جن کا خام مال زراعت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور ان کا بالواسطہ اور بلا واسطہ معاشی تعلق زراعت سے ہی منسلک ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہر دور حکومت میں زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کا نعرہ محض سیاسی مقاصد اور ووٹ کے حصول کیلئے لگایا جاتا رہا ہے۔ حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ، ہر ایک نے زراعت پر وہ توجہ نہیں دی جس کی اشد ضرورت ہے۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے طویل عرصہ وفاق اور پنجاب میں حکمرانی کی ہے لیکن ان دونوں بھائیوں کا رجحان بھی تاجروں اور صنعتکاروں کی جانب رہا، زراعت اور کسان ان کی ’’حقیقی‘‘ ترجیح میں کبھی شامل نہیں رہے۔2008 سے 2018 تک پنجاب میں میاں شہباز شریف کی بلا شرکت غیرے حکمرانی رہی لیکن زراعت کی سب سے زیادہ تباہی بھی اسی عرصہ کے دوران دیکھنے میں آئی۔ قومی سطح پر 2010 سے 2018 ء تک زرعی ترقی کیلئے حکومتی خرچ میں 60 فیصد کمی آئی ہے، ایسے میں زراعت کی ترقی کے دعوے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہی کئے جاتے تھے۔

کہنے کو تو میاں شہباز شریف نے پنجاب کی زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کیلئے صوبائی بجٹ میں اربوں روپے مختص کر رکھے تھے لیکن عملی طور پر زراعت کے شعبہ پر خرچ نہیں کیا گیا اور جو کچھ خرچ ہوا بھی تو وہ ضیاع میں گیا۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں زراعت کی ترقی صرف میڈیا میں اشتہاروں کی حد تک محدود تھی، ان اشتہاروں پر ایک ارب روپے سے زائد خرچ کئے گئے تھے۔ شہباز سرکار نے شہریار سلطان جیسے محنتی اور کسان دوست سیکرٹری زراعت کو تبدیل کر کے نندی پور فیم کیپٹن(ر) محمود کو سیکرٹری زراعت پنجاب تعینات کر کے رہی سہی کسر نکال دی تھی اور زراعت و کسان لاوارث بنا دیئے گئے تھے۔

کیپٹن(ر) محمود نے محکمہ زراعت پنجاب میں خوف وہراس کا ایک نیا ماحول بنادیا تھا جس کی وجہ سے نہایت قابل افسر یا تو رخصت پر چلے گئے یا ڈیپوٹیشن پر ۔ جو چند باقی رہ گئے انہوں نے صرف حاضری پورا کرنے کو عزت بچانے کے مترداف سمجھا ۔2015 ء میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بلدیاتی الیکشن سے قبل 342 ارب روپے مالیت کے ’’کسان پیکج‘‘ کا اعلان کیا اور دعوی کیا گیا کہ یہ پروگرام زراعت اور کسان کا مستقبل تبدیل کردے گا اور نئی بلندیاں ملیں گی لیکن اربوں روپے کے منصوبے سیاسی افراد کی پسند و ناپسند کا شکار ہو گئے، پیسہ کرپشن کی نذر بھی ہوا اور عملی طور پر اس پیکج کا زراعت اور چھوٹے کسان کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔

گزشتہ تین برس کے دوران پنجاب میں زراعت تو تقریبا دم توڑ چکی تھی یہی وجہ ہے کہ آئے روز لاہور میں کسانوں کے بہت بڑے احتجاجی جلوس آتے رہے، گندم، گنا، چاول، آلو سبھی اجناس کی کاشت میں کسانوں کو بھاری مالی نقصان ہوا۔ شہباز حکومت کی زراعت میں دلچسپی کا ا ندازہ اس مثال سے لیا جا سکتا ہے کہ 2014 ء میں لاہور کے علاقہ لکھو ڈیر میں ملک کی پہلی سٹیٹ آف دی آرٹ سبزی و پھل منڈی بنانے کا آغاز کیا گیا تھا اور آج پانچ برس بعد بھی یہ منصوبہ نقشوں اور ایکوائر کی گئی خالی زمین تک محدود ہے، اب موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی اور ملک کے معروف کاشتکار جہانگیر ترین نے چاروں صوبوں کے وزرائے زراعت اور لائیو سٹاک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’’وزیر اعظم قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام‘‘ کا اعلان کردیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت آئندہ چار برس میں زراعت اور آبپاشی کے شعبے پر 309 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔عمران خان اور جہانگیر ترین کے اس منصوبے کا اگر ماضی کے زرعی میگا منصوبوں سے موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف حکومت کا منصوبہ بہت سے زاویوں سے بہت جدید اور مفید دکھائی دیتا ہے۔

اس پروگرام کو تین مرکزی نکات پر مرتب کیا گیا ہے جس میں سب سے اہم فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا، (2 )کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی اور آلات کی سبسڈائزڈ فراہمی اور (3 ) زراعت کیلئے پانی کی وافر دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔ جہانگیر ترین نے ماہی پروری کے شعبے کو منصوبے میں شامل کر کے آوٹ آف دی بکس ایک نیا زرعی ترقی کا راستہ کھول دیا ہے، ماضی میں کبھی بھی کسی نے ماہی پروری کی جانب توجہ نہیں دی جبکہ اس شعبہ میں کروڑوں ڈالر کے منافع کی استعداد موجود ہے۔

ستمبر 2018 سے ابتک وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے جہانگیر ترین کی سربراہی میں 25 سے زائد ورکنگ گروپس کی 100سے زائد میٹنگز کے انعقاد کے بعد زرعی ایمرجنسی کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ منصوبہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور کسانوں کے مالی اشتراک کی بنیاد پر بنا ہے اس میں وفاقی حکومت 85 ارب روپے خرچ کرے گی جبکہ پنجاب حکومت 75 ارب، سندھ45 ارب، خیبر پختونخوا 20 ارب، بلوچستان 34 ارب اور چاروں صوبوں کے کسان 50 ارب روپے کی مالی شراکت داری کریں گے۔

چاول، گندم، گنا اور آئل سیڈ کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائے گی، 220 ارب روپے کے آبی منصوبے شامل کیئے گئے ہیں جن میں کھالوں کی پختگی اور درستگی، چھوٹے ڈیموں کی مدد سے قابل کاشت رقبہ میں اضافہ کیا جائے گا۔لائیو سٹاک اور ماہی پروروی کے شعبوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے مختلف اقسا م کی سبسڈی دی جائے گی۔ پنجاب میں 4 نئی زرعی منڈیوں کی تعمیر اور پرانی منڈیوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ دیہاتوں میں دیسی مرغیوں کی فراہمی سے دیہی معیشت کو سہارا دینے کی سکیم شامل کی گئی ہے۔ مختلف قسم کے مویشی امراض پر قابو پانے کیلئے فنڈز رکھے گئے ہیں۔

جہانگیر ترین نے پریس کانفرنس کے دوران یہ اہم بات کہی ہے کہ پاکستان میں زرعی تحقیق اور زراعت کیلئے نئے بیجوں کی تلاش پر ماضی میں کام نہیں ہوا ہے اور اس وقت اچھا بیج نہ ہونے سے فی ایکڑ پیداوار تنزلی کا شکار ہے لیکن ہم اس جانب خصوصی توجہ دیں گے۔ بلوچستان میں سات لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ کو کچھی کینال کے ذریعے قابل کاشت بنانے کا اہم منصوبہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں انقلاب لا سکتا ہے۔ جہانگیر ترین نے آڑھتیوں کی موجودگی اور ان کی افادیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور کہا ہے ان کی تعداد بڑھانا ہو گی جبکہ انہوں نے امدادی قیمت کی کسانوں کو ادائیگی ہر صورت یقینی بنانے کا بھی عزم کیا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں پروگریسو کسان کے طور پر جہانگیر ترین سے زیادہ کامیاب کوئی شخص نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے زرعی شعبہ کو غیر سرکاری طور پر جہانگیر ترین کی نگرانی میں دے دیا ہے۔ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے سرکاری عہدہ لینے سے روکا ہے اس لئے وہ کسی بھی غیر سرکاری حیثیت میں ملک و قوم کے مفاد میں کام کر سکتے ہیں لیکن سیاسی مخالفین کو ان کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس سے خوب تکلیف ہوئی ہے جس کا اظہار بیانات اور ٹویٹس سے بخوبی ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔