دیگر کھیلوں کے ساتھ حکومتی بے رخی کا سلسلہ آخر کب تک؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 7 جولائی 2019
مسلسل مایوسیاں دینے والی کرکٹ ہی آنکھ کا تارا کیوں۔ فوٹو: فائل

مسلسل مایوسیاں دینے والی کرکٹ ہی آنکھ کا تارا کیوں۔ فوٹو: فائل

آئی سی سی ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم نے گرین شرٹس کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے، پہلے سرفراز الیون کو ذلت آمیز ناکامی سے دو چار کیا، بعد ازاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگلینڈ کے ہاتھوں شکست بھی کھائی تاکہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی نہ کر سکے۔

یقینی طور پر بھارت اپنے مقصد میں کامیاب رہا اورکرکٹ کے عالمی میلے سے باہر ہو کر پاکستان کھلاڑیوں کی وطن آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ورلڈ کپ میں کروڑوں شائقین کے دل توڑنے والے ہمارے کرکٹرز اب بھی قومی ہیروز ہیں جبکہ جو قوم کے اصل ہیروز ہیں، انہیں زیرو بنا دیا گیا ہے۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں،سنوکر پلیئرز کو ہی دیکھ لیں، پاکستانی سنوکر کھلاڑیوں نے ایک ہفتہ قبل فائنل مقابلوں میں بھارتی پلیئرز کا غرور خاک میں ملا کر ایک نہیں بلکہ 2ٹائٹلز اپنے نام کئے ہیں، یہ اعزازات بھی ایشیائی اور عالمی سطح کے ہیں۔

قطر کے شہر دوحہ میں منعقدہ ’عالمی ٹیم کپ سنوکر چیمپئن شپ میں اسجد اقبال اور محمد بلال پر مشتمل پاکستانی ٹیم نے بھارت کے سابق عالمی چیمپئین پنکج ایڈوانی اور لکشمن راوت پر مشتمل بھارتی سائیڈکے خلاف 5 فریمز کے مقابلے میں 1-3 سے کامیابی سمیٹ کر عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ اس سے قبل دوحہ میں ہی پاکستان کے بابر مسیح اور ذوالفقار اے قادر پر مشتمل پاکستان 2 ٹیم نے بھارت 1 ٹیم کے پنکج ایڈوانی اور لکشمن راوت کو سخت مقابلے کے بعد 2-3 سے قابو کر کے گولڈ میڈل اور وننگ ٹرافی پرقبضہ جمایا۔

بلاشبہ عالمی سطح پر کامیابی سمیٹنا کوئی معمولی بات نہیں اور اگر یہ کامیابی روایتی حریف بھارت کے خلاف ہو تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔بھارتی ٹیم کے خلاف اگر یہ کارنامہ ہماری لاڈلی اور چہیتی کرکٹ ٹیم انجام دیتی تو حکومت اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی، کھلاڑیوں کو ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدر میں بلا کر ان کی خوب ستائش کی جاتی، کرکٹرز کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے اور کروڑوں روپے کے انعامات اور میڈلز سے نوازا جاتا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایشیائی اور عالمی چیمپئن بننے والے اسجد اقبال، محمد بلال، بابر مسیح اور ذوالفقار قادر کرکٹرز کی بجائے سنوکر پلیئرز ہیں، اس لئے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرا کر یہ کھلاڑی جب پاکستان پہنچے تو ان کا استقبال کرنے والا کوئی نہ تھا۔

اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے باوجود حکومت کی طرف سے اعزازات اور انعامات سے نوازنا تو دور کی بات ہے، حکومت کی طرف سے مبارکباد تک نہیں دی گئی۔،حکومتی اس بے رخی پر کھلاڑی بھی چیخ پڑے ہیں اور انہیں بالاخر کہنا ہی پڑ گیا جوکرکٹ ورلڈ کپ میں ہار گئے،ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے جبکہ ملکی نیک نامی کا سبب بننے والے پلیئرز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، وہ تو بھلا ہو پنجاب سنوکر ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر ایم بی غوری کا جنہوں نے فاتح کھلاڑیوں کے لئے فی کس 25 ہزار روپے کا اعلان کیا ہے۔

سنوکران چارملکی کھیلوں میں شامل ہے جس نے پاکستان کو عالمی چیمپیئن بنایا ہے لیکن دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کھیل کے پاس کرکٹ جیسا گلیمر نہیں کہ سپانسرز خود چل کر آئیں ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے عالمی چیمپئن محمد یوسف اسی معاشی گردش میں پھنسے رہے۔ ان کے بعد عالمی ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے صالح محمد کو جب یہاں اپنا مستقبل نظر نہیں آیا تو وہ اپنے وطن افغانستان لوٹ گئے۔ صرف یہی دو نہیں بلکہ سنوکر کے ہر پاکستانی کھلاڑی کی کہانی ایک جیسی ہی ہے۔سابق عالمی چیمپئن محمد آصف بھی مسلسل حکومتی بے رخی کا شکار ہیں۔

کچھ اسی طرح کی صورت حال ہاکی، باکسنگ، ایتھلیٹکس، ریسلنگ سمیت دوسری گیمز کی بھی ہے،حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ملکی اور عالمی سطح پرملک وقوم کا نام روشن کرنے والے بیشتر پلیئرز غربت اور بیماری سے لڑتے لڑتے منوں مٹی میں دفن ہو چکے ہیں اور جو زندہ ہیں،وہ معمولی معمولی کام کر کے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں، کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کوئی ریڑھی لگا کر گزر بسر کر رہا ہے،کوئی سرکاری و نیم سرکاری محکمے میں نچلے درجے کا ملازم ہے تو کوئی بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو کرکٹرز ہوں یا کوئی اور گیم کے کھلاڑی سب کا ایک ہی مقصد اپنے کھیل کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے، لیکن حکومتی نظر میں کرکٹ ہی صرف گیم ہے ، پلیئرز کی رائے میں پہلے ادوار میں کھلاڑیوں کو انعامات سے نوازنے کے ساتھ پلاٹ بھی ملتے تھے۔اب تو کچھ بھی نہیں ہے، اگر کرکٹرز کو سنٹرل کنٹریکٹ اور دیگر مالی مراعات مل سکتی ہیں تو دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو کیوں نہیں۔

جب کھلاڑیوں کو مراعات ملیں گی توانہیں بھی اندازہ ہوگا کہ اگر وہ بڑا کارنامہ انجام دیں گے تو انہیں بھی معاشرے میں عزت ووقار ،ملنے کے ساتھ حکومت کی طرف سے انعام ملے گا تو وہ زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی گیم پر توجہ دے سکیں گے، جب تک پلیئرز کوحکومت کی طرف سے مراعات اور ریوارڈز نہیں ملیں گی تو مزید کھلاڑیوں کا اوپر آنا بھی مشکل ہو جائے گا۔عمران خان خود بھی سپورٹس مین ہیں اور کھیلوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ بھی ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنوکر سمیت دوسری گیمز کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کرے اور کرکٹ کی طرح دوسری ملکی کھیلوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دے جس کی وہ حقدار ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔