’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ صدر زرداری کی میراث

بلاول بھٹو زرداری  جمعرات 12 ستمبر 2013

میں کافی اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ صدر زرداری کی میراث کو تاریخ کے صفحات میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ میں یہ بات ان کے بیٹے، پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ یا پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔ میں ان کی صدارت کا موازنہ امریکی صدر لنڈن بی جانسن سے کروں گا۔ جانسن نے اس وقت منصب صدارت سنبھالا تھا جب عوام میں بیحد مقبول اور کرشماتی شخصیت کے مالک صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کردیا گیا تھا۔ شہیدمحترمہ بینظیر بھٹو کی طرح ، امریکی صدرجان ایف کینیڈی بھی اپنے ایجنڈے اور وژن کو ملک  میں لاگو کرنے سے پہلے ہی قتل کردیے گئے تھے۔

لنڈن بی جانسن نے اپنے پیشروجان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد ان کے سیاسی سرمائے کو استعمال کیا اور انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تاکہ کینیڈی کے خوابوںکوحقیقت کا روپ دیا جاسکے اور وہ تمام کام کیے جاسکیں جن کے ذریعے امریکی عوام کینیڈی کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ لنڈن بی جانسن نے اپنے دور صدارت میں امریکا کا تاریخی سول رائٹس کا قانون منظور کرایا اور اس کے علاوہ بھی ایک ’’عظیم معاشرے‘‘ کی تشکیل اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد پروگرام شروع کیے جن کا اعتراف آج بھی ہر کوئی کرتا نظر آتا ہے۔ جانسن کے ان تاریخی اقدامات اور عوام کی بڑی توقعات کے باوجود ویتنام میں ہونے والی جنگ اور دائیں بازو کی جانب سے بغض و عناد پر مبنی پروپیگنڈے  نے لنڈن بی جانسن کی مقبولیت کو اس حد تک شدید دھچکہ لگایا کہ انھوں نے دوبارہ الیکشن لڑنے کا بھی نہیں سوچا تاہم آج انھیں جدید امریکا کے عظیم صدور میں سے ایک صدر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب بھی عظیم اور کامیاب امریکی صدور کی فہرست مرتب کی جائے گی تو لنڈن بی جانسن کا نام اس فہرست میں بہت نمایاں ہوگا۔

امریکی صدر لنڈن بی جانسن اپنے دور صدارت میں بہت سے معاملات میں آصف زرداری کے مقابلے میں فوقیت رکھتے تھے۔ جانسن اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انھیں کانگریس میں بھرپور اکثریت حاصل تھی۔ وہ جب اقتدار میں آئے تو امریکی معیشت ترقی کی بلندیوں پر تھی،اس کے علاوہ انھیں ایک ایسی متحرک سپریم کورٹ بھی ملی جو لنڈن بی جانسن کے ایجنڈے کی حمایت کرتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جانسن کو اپنے اقدامات اور پالیسیوں کو لاگو کرنے میں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، مگر ان کے مقابلے میں صدر زرداری عالمی معیشت کی مندی کے دور میں اقتدار میں آئے، انھوں نے مشکل حکومتی اتحادیوں اور قدامت پسند سپریم کورٹ کی جانب سے مسلسل حملوں کا ایک ساتھ مقابلہ کیا۔

اس میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور برسوں سے ملک کے گلی کوچوں پر حملہ آوردہشت گردی کے عفریت سے مقابلہ کرنا بھی ایک الگ معاملہ تھا۔ ان سب مشکل اور پیچیدہ معاملات و مسائل کے باوجود انھوں  نے اپنی جراتمندی، دوراندیشی، سیاسی سوجھ بوجھ اور ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ انھوں نے  ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کے مرحلے کی قیادت کی۔ دنیا نے دیکھا کہ صدر زرداری نے تاریخی 18ویں ترمیم منظور کی اور انتہائی طاقتور سویلین صدر کی حیثیت سے اپنے تمام آئینی اختیارات سے بخوشی دستبردار ہوکر پوری دنیا کو حیران کردیا۔ انھوں نے وفاق سے اہم اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جس کی وجہ سے جمہوریت اور وفاق دونوں کو مضبوطی و استحکام ملا۔

اور پھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے جو صدر زرداری کا اپنا خیال تھا، یہ فلاحی پروگرام نہ صرف پورے ملک کے غریب عوام کے لیے سماجی تحفظ کا پہلا قدم تھا بلکہ اسے خطے کے لیے انتہائی شفاف، موثر اور ماڈل پروگرام کی حیثیت سے عالمی سطح پر بھی شاندار پذیرائی ملی اور مختلف ممالک نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کرنے پر حکومت کو سراہا۔ عالمی معیشت میں کساد بازاری اور مندی کی صورت حال کے باوجودانھوں  نے اپنی جامع پالیسیوں اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے قومی معیشت کو پیروں پر کھڑا رکھا اور ایسے وقت میں جب ناقدین صدر زرداری کے دور میں ملکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کررہے تھے، انھوں نے زرعی شعبے میں نمایاں اقدامات کے ذریعے پاکستان کو گندم خریدنے والے ملک کے بجائے گندم بیچنے والا ملک بنایا۔ انھوں نے یہ سب کچھ مغرب کی بہت تھوڑی معاشی مدد کے ساتھ کیا۔یہی نہیں، سماجی اور معاشرتی شعبوں میں بھی صدر زرداری کے اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں۔ انھوں نے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد کے التوا، خواتین  کے لیے مزید حقوق، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے موثر قانون سازی کرکے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے خوابوں کو تعبیر دی۔   یہ ایسے بڑے کام تھے جن کے لیے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بینظیر بھٹو شہید نے بھی بہت سے منصوبے بنارکھے تھے لیکن زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔

اس تاثر کے باوجود کہ پاکستان پیپلزپارٹی مغرب کی حامی جماعت ہے اور اسے ہمیشہ مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل رہتی ہے،صدر زرداری ہر مشکل وقت میں پاکستان کی خودمختاری کے لیے اصولوں پر کھڑے رہے اور ملک و قوم کے لیے انھوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں اپنے دلیرانہ خطاب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  ’’do more‘‘ کے عالمی مطالبے کو یکسر مسترد کردیا۔ جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسے واقعات کی صورت میں ہماری قومی خودمختاری کی خلاف ورزی اورقومی غیرت پر حملہ ہوا تو وہ   عالمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ گئے اور امریکی فوج کے زیر استعمال شمسی ایئر بیس جیکب آبادکو بند کرنے کے ساتھ نیٹو کی سپلائی لائن کو بھی اس وقت تک معطل رکھا جب تک تاریخ میں پہلی بار امریکا کی حکومت  نے اس فرینڈلی فائرنگ پر معافی نہیں مانگ لی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے بہادر جوانوں کو اپنی جانیں دینا پڑیں۔ برطانیہ  کی حکومت نے بھی اس وقت پاکستان سے کہا تھا کہ وہ امریکا سے معافی کے مطالبے سے دستبردار ہوجائے کیونکہ ایسے ہی ایک واقعے میں جب برطانوی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی تو برطانوی حکومت امریکا سے معافی منگوانے میں ناکام رہی تھی۔

مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے صدر زرداری نے طالبان کے خلاف سوات آپریشن کی سربراہی کی اور وادی سوات کو دہشت گردوں اور جنگجوئوں سے صاف کرکے وہاں کے باسیوں کو ایک بار پھر امن لوٹایا۔ سوات میں امن ایک خواب تھا جس کی تعبیر صدر زرداری کی قیادت میں ہی لوگوں کو ملی۔ یہ ایک کامیاب فوجی آپریشن تھا جو ان سے پہلے فوجی ڈکٹیٹر بھی اپنے دور میں نہیں کرسکا تھا۔صدر زرداری کے عظیم اقدامات میں سے ایک پاکستان کو مستحکم جمہوریت کی جانب گامزن کرنا ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ جس دن میری والدہ اور ملک کی سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو سپردخاک کیا گیا تھا تومیں نے کہا تھا کہ ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘۔ ایک بیٹے اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں صدر آصف علی زرداری پر جتنا بھی فخر کروں کم ہے، انھوں نے صحیح معنوں میں مجھے دوسری وراثت دی ہے۔صدر زرداری نے اپنی زندگی کے قیمتی ساڑھے 11 سال پاکستان میں جمہوریت کے لیے لڑتے ہوئے سیاسی قیدی کی حیثیت میں جیل میں گزارے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ اور میں نے اپنی والدہ کو اس جنگ میں کھودیا لیکن ہم نے جنگ جیت لی اور ملک میں جمہوریت آگئی۔ میرے الفاظ یاد رکھیں، تاریخ صدر زرداری کو پاکستان کے عظیم اور کامیاب ترین  لیڈروں میں سے ایک لیڈر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔