- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پولیس وردی پہن لی
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
کیسی تھی عورت امریکا کی۔۔۔
مغربی اقوام آج ترقی یافتہ، باشعور اور مہذب کہلاتی ہیں۔ مختلف مغربی معاشرے انسانی حقوق کے علم بردار، صنفی مساوات کے حامی، عدل و انصاف کے پرچارک اور خود کو ہر قسم کے تعصب سے بالا تر قرار دیتے ہیں۔ مگر ایک صدی اور چند دہائیوں قبل تک بھی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔
امریکا کی بات کی جائے تو آٓج دنیا بھر میں انسانی حقوق کا چیمپئن اور مساوات کا علم بردار یہ ملک نسل پرستی اور تعصب کی آگ میں جل رہا تھا۔ امریکی معاشرے میں مرد حاکم اور عورت مجبور و بے بس تھی۔ اسے گھر سے لے کر سماج کے ہر شعبے میں جبر اور استحصال کی بدترین شکلوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آج یہی امریکا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کا مرکز ہے اور یہاں ان کے دفاتر قائم ہیں۔
تاریخ کے اوراق الٹیں تو امریکا میں عورتوں سے متعلق بعض ریاستوں میں ایسے قوانین موجود تھے جو نہ صرف اس کے بنیادی حقوق کی نفی کرتے ہیں اور ظلم و جبر کی ایک شکل ہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔ یہاں ہم ایسے ہی کچھ قوانین کا ذکر کررہے ہیں جن سے معلوم ہو گاکہ امریکا میں عورتوں کی کیا حیثیت اور مقام تھا اور اس کے کیا حقوق تھے۔
امریکا میں عورتوں کو گھر اور سماجی زندگی میں بھی طرح طرح کی پابندیوں اور بندشوں کا سامنا تھا۔ ان کو مرد کا مطیع و پابند اور محکوم رکھنے کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے تھے جن کی خلاف ورزی جرم تھی۔ کیلی فورنیا کے ایک شہر میں قانون سازی کے ذریعے خاتون سیکرٹری کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ تنہائی میں اپنے باس کے کمرے میں نہیں جائے گی۔ ایک ریاستی قانون کے مطابق مریض عورت کو علاج کی غرض سے اس وقت تک بے ہوش نہیں کیا جاسکتا تھا جب تک کمرے میں معالج اور مریضہ کے علاوہ کوئی تیسرا شخص موجود نہ ہو۔
ظلم اور بے حسی کی مثال اس سینٹ لوئس کے ایک قانون سے ملتی ہے جس کے مطابق آتش زدگی کی صورت میں کسی عمارت سے ایسی عورت کو باہرنکالنا جرم تھا جس نے شب خوابی کا لباس پہنا ہوا ہو۔ امریکی ریاستوں کے مختلف شہروں میں خواتین سے متعلق عجیب و غریب قوانین اور پابندیاں عائد تھیں۔ مشی گن میں بیوی کے بالوں کو اس کے شوہر کی ملکیت قرار دیا گیا تھا جب کہ ایک ریاست کا قانون کہتا تھا کہ بیوی اپنے شوہر کی ڈاک اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھول سکتی۔ اسی طرح مصنوعی دانت لگوانے کے لیے بھی عورت اپنے خاوند کے تحریری اجازت نامہ کی محتاج تھی۔
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر ایک زمانہ تھا جب آج کے یہ مہذب اور قانون پسند معاشرے اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔ عورتوں کو کسی اصول، پابندی کی خلاف ورزی یا مرد کی اجازت کے بغیر کوئی عمل انجام دینے پر سزا کے طور پر مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لگ بھگ صدی یا چند دہائیوں قبل تک کئی امریکی ریاستوں اور شہروں کے مقامی قوانین مرد کو اس کی اجازت دیتے تھے۔
ریاست الباما کے شہر جیسپر میں مقامی انتظامیہ کے نزدیک وہ شوہر قابلِ گرفت نہ تھا جو چھڑی سے اپنی بیوی کی پٹائی کرے۔ گویا ایک قانون کے تحت اسے چھڑی سے بیوی کی پٹائی کرنے کی اجازت تھی، مگر یہ شرط ضرور عائد کی گئی تھی کہ چھڑی ایک عام انسانی انگوٹھے سے زیادہ موٹی نہ ہو۔
امریکا میں ایک قانون کے تحت ارکنساس کا کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی بات پر سزا دینے اور کسی عمل سے باز رکھنے کے لیے مار پیٹ کرسکتا تھا، لیکن ایسا مہینے میں ایک ہی بار کرنے کی اجازت تھی۔ اس سے زائد بار بیوی کی پٹائی اختیار سے تجاوز یا زیادتی کے مترادف ہوتا تھا۔ آج کی امریکی ریاست کیلی فورنیا بہت مختلف ہے۔ آپ نے اس کے شہر لاس اینجلس کا بہت شہرہ سنا ہو گا۔
وہاں کے ایک قانون کے مطابق ضرورت محسوس کرنے پر خاوند اپنی بیوی کی پٹائی کے لیے اپنے پتلون کی بیلٹ استعمال کرسکتا تھا جس کی چوڑائی دو انچ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی قانون کے ذیل میں ایک دل چسپ بلکہ مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ ناگزیر ہو تو شوہر دو انچ سے زائد چوڑی بیلٹ سے بھی بیوی کی پٹائی کرسکتا ہے، مگر یقینی بنائے کہ بیوی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔
موجودہ دور میں جہاں اب ترقی پزیر ممالک میں بھی حقوقِ نسواں کے حوالے قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد پر زور دیا جارہا ہے، وہیں عورتوں کو اپنی زندگی اپنے مزاج، عادات اور پسند ناپسند کے مطابق گزارنے کی آزادی بھی حاصل ہے، لیکن چند دہائیوں قبل تک صورتِ حال مختلف تھی۔ خود کو انسانی حقوق، صنفی برابری اور مساوات کا چیمپئن بتانے والا امریکا کل تک عورتوں کو مرضی اور پسند کا لباس پہننے کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا۔ کئی امریکی ریاستوں میں خواتین کے لباس سے متعلق عدم مساوات اور جبر پر مبنی قوانین نافذ رہے۔
قوانین کی پرانی دستاویز کھنگالیں تو معلوم ہو گا کہ نارتھ کیرو لائنا کے ایک شہر میں خواتین کے لباس میں کم ازکم 16 گز کپڑا استعمال ہو گا۔ اسی طرح ریاست ایریزونا کے ایک شہر کا قانون تھا کہ عورتیں پتلون نہیں پہن سکتیں۔ امریکا میں عورتوں کا مخصوص رنگ استعمال کرنا بھی ممنوع تھا۔ یعنی ریاست وسکانسن کے بڑے قصبے سینٹ کورکس کے قانون کے تحت پبلک مقامات پر عورتیں سرخ رنگ کا لباس، ہیٹ یا جوتے نہیں استعمال کرسکتی تھیں۔
ایک ریاستی شہر ساکو میں وہ ہیٹ یا ٹوپی پہننا قانون کی خلاف ورزی تھی کہ اس طرح کسی کی توجہ منتشر ہو سکتی ہے۔ چست لباس پہننا نیویارک کے ایک قانون کے تحت جرم تصور کیا جاتا تھا جب کہ عورتوں کا چمک دار جوتے پہننا اوہائیو کے شہر کلیولینڈ کی حدود میں ممنوع تھا۔
تلخیص و ترجمہ: عائشہ احمد
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔