کراچی جو اک شہر تھا

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 25 جولائی 2019

یکم جنوری 2001ء کی تاریخ تھی۔ پچھلی صدی کا اختتام ہوچکا تھا۔ نئی صدی کے پہلے دن طلوع ہونے والے سورج نے جب مرگلہ پہاڑی کے دامن میں اپنی پہلی شعاعیں بکھیریں تو عبیداللہ کیہرکو اسلام آباد میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کہنے لگا ’’میاں تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ عبید اللہ مسکرائے بولے ’’کراچی سے… کراچی جو اک شہر تھا۔‘‘

کراچی کو عبیداللہ نے جب پہلی بار دیکھا تھا تو وہ بھی اسی طرح حیران ہوئے تھے۔ ان دو حیرانیوں کے درمیان 28 سال کا وقفہ تھا۔کیہر کی کتاب ’’کراچی جو اک شہر تھا ‘‘ اسی کی داستان ہے۔ یہ اس طرح شروع ہوتی ہے، خیرپورمیرس سے صبح کی چلی ہوئی ریل گاڑی سارا دن سندھ کے زرعی میدانوں میں دوڑتے دوڑتے جب کوٹری سے آگے کوہستانی ویرانوں میں داخل ہوئی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ سترکی دہائی میں شاید ریل گاڑیاں چلتی بھی آہستہ تھیں۔ اسی لیے کراچی پہنچتے پہنچتے خاصی رات ہوگئی۔

کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر جب حافظ عبدالرحمن کیہر اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ لشٹم پشٹم اترے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات گئے اسٹیشن سے باہر نکلنے کی بجائے یہ رات وہیں ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں گزاری جائے۔ حافظ صاحب کے بچے جنھوں نے پہلی مرتبہ اتنا طویل سفر کیا تھا، ان کی نیند غائب تھی۔ وہ اسٹیشن کے ویران پلیٹ فارم پر یہاں سے وہاں دوڑیں لگا رہے تھے۔ ماں نے مسافر خانے کے فرش پر دری بچھا کر ان کے سونے کا انتظام کردیا، اور وہ سو گئے۔

’’صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ایک بچہ سب سے پہلے بیدار ہوا۔ اس نے باقی سب کو نیند میں پایا تو خود ہی اٹھا اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے ڈرتے ڈرتے ایک قدم باہر نکالا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یہ ایک چوڑی سی گلی تھی جس کے دونوں طرف اونچی عمارتیں تھیں۔ اس گلی کے آخر میں ایک چوڑی سڑک تھی جس پر صبح کے دھندلکے میں اکا دکا بگھی گزرتی نظر آتی تھی۔ اس کے گھوڑوں کی ٹاپ مدھم سروں میں یہاں تک پہنچ رہی تھی۔ اس چوڑی سڑک کے کنارے ایک اتنی اونچی بلڈنگ آسمان کی طرف سر اٹھائے کھڑی تھی کہ جو اس بچے نے خواب میں بھی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بچہ ڈر کے مارے اس عمارت کی آخری منزل دیکھنے کے لیے سر پوری طرح اٹھائے بغیر واپس اسٹیشن کی محفوظ حدود میں داخل ہوگیا۔ خیرپور کے مختصر سے پرسکون شہر سے اس عروس البلاد کی طرف آنے والے اس بچے کی یہ کراچی پر پہلی نظر تھی۔

عبیداللہ کیہر لکھتے ہیں ’’کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کی اس یادگار صبح میں وہ میرا ازلی تجسس ہی تھا کہ جس نے مجھے ریلوے اسٹیشن سے باہر جھانکنے پر مجبورکیا تھا پھر میرے لیے کراچی کا پہلا منظر ہی حیرت انگیز تھا۔ پاکستان کی بلند ترین عمارت حبیب بینک پلازہ کے اس اچانک جلوے نے مجھے ڈرا دیا تھا۔‘‘

عبیداللہ کیہر کے والد حافظ عبدالرحمن عالم دین اور عربی کے استاد تھے۔ درس و تدریس کے سلسلے میں سندھ کے مختلف شہروں میں ہجرت کرتے تھے۔

1972ء میں ان کا خاندان خیرپور سے کراچی آگیا۔ سب سے پہلے یہ لیاقت آباد میں رہے پھر لانڈھی، قائد آباد اور ملیرکھوکھرا پار میں رہے اور الفلاح سوسائٹی میں۔ عبیداللہ کا تعلیمی سفر مقامی اسکولوں سے شروع ہوا ، ڈی جے کالج سے انٹر کیا اور این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ وہاں سے مکینیکل انجینئر بن کر نکلے۔ یوں عبیداللہ کیہر ہیں تو انجینئر لیکن اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے انھوں نے انجینئرنگ سے ہٹ کر اور دوسرے راستے اختیارکیے ہیں۔ سیاحت، تاریخ و ثقافت، سفر نامہ، کالم نگاری، فوٹو گرافی اور فلم سازی کے ذریعے میڈیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ وہ اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب ’’دریا دریا، وادی وادی‘‘ کے خالق ہیں۔ ان کی تحریریں اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔

آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں جن کے موضوع پاکستان، ایران، چین، آذربائیجان، ترکی، سعودی عرب اور بنگلہ دیش ہیں۔ کراچی جو ایک شہر تھا اس کا احوال بیان کرتے ہوئے عبیداللہ کیہر لکھتے ہیں کہ پاکستان بنتے وقت کراچی کی حدود مغرب میں سینٹرل جیل تک، شمال میں لیاری اور جنوب میں جیکب لائنز تک تھیں۔ جیل کے ارد گرد جہاں اب دور دور تک گنجان آبادی ہے، جنگل تھے جن میں تیترکا شکار ہوتا تھا۔ سائٹ کے علاقے میں بھیڑیے پائے جاتے تھے اور لیاری میں کھڑے پانی کے تالابوں میں مرغابیاں شکارکی جاتی تھیں۔ آج جس جگہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی ہے وہاں موجود جنگل ایک باقاعدہ شکارگاہ تھا، سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہوتا تھا۔

پیدل چلنا اور طویل فاصلوں کے لیے سائیکل استعمال کرنا عام سی بات تھی۔ کراچی میں ٹرام 1885ء سے اب تک چل رہی تھی۔ 1914ء تک اسے گھوڑے کھینچتے تھے پھر ڈیزل انجن آگئے۔ ٹرام کراچی میں سترکے عشرے تک چلتی رہی۔ یہ ٹرامیں کیماڑی، بولٹن مارکیٹ، صدر،کینٹ اسٹیشن، چاکیواڑہ اور چڑیا گھر کے لیے چلتی تھیں۔ لالوکھیت کراچی کا دل تھا، پررونق زندہ دل لوگوں کا مرکز۔ تین ہٹی پر لیاری ندی پر پل سے لے کر لالوکھیت دس نمبر تک سارا علاقہ ایک مارکیٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دن بھر بازاروں میں گہما گہمی رہتی، شام ہوتے ہی رونق کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔

عبیداللہ کیہر کو اسکول کے زمانے ہی سے اردو مطالعے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ پہلے پہل تو وہ کباڑیوں کے ٹھیلوں سے بچوں کے پرانے رسالے، ہمدرد نونہال، تعلیم و تربیت، بچوں کی دنیا وغیرہ خرید لاتے تھے پھر جب گھر کے حالات اور بہتر ہوئے تو بچوں کے ناول، کہانیاں اور دوسری کتابیں خرید کر لانے لگے پھر ایک چیز ایسی ہوئی جس نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ان کے ابا کے ایک دوست نے انھیں پی آئی اے کی 1979ء کی ڈائری لاکر دی۔

لکھتے ہیں ’’یہ ڈائری کیا تھی، میرے لیے ایک نئی دنیا۔ اس کے ہر صفحے پر پاکستان کے مختلف علاقوں کی دو دو خوبصورت رنگین تصاویر تھیں۔ شمالی علاقوں کے پہاڑوں، دریاؤں اور سبز وادیوں کے پرکشش مناظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام خطوں کی ان تصویروں نے مجھے اپنے وطن پاکستان کے عشق میں مبتلا کردیا۔ اس کے ساتھ ہی میرے من میں ایک سیاح جو کہیں خوابیدہ تھا اسے بھی بیدار کردیا۔ اس ڈائری کو میں نے اپنے سینے سے لگالیا اور مختلف تاریخوں میں بچکانہ انداز میں کچھ روزنامچے بھی تحریر کیے۔ یہ ڈائری میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ اس ڈائری نے مجھے لکھنے کی طرف بھی ایسا مائل کیا کہ آج تک لکھے چلا جا رہا ہوں۔‘‘

پھر یہ بھی ہوا کہ عبیداللہ ہمدرد فاؤنڈیشن پہنچ گئے۔ مسعود احمد برکاتی سے ملاقات ہوگئی۔ ایک دن وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں حکیم محمد سعید کے پاس لے گئے اور ان کا یہ کہہ کر حکیم صاحب سے تعارف کرایا کہ یہ سندھی ہیں مگر ہیں اردو کے عاشق۔ ہمدرد نونہال سے محبت کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے ان سے مل کر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ اپنے آٹو گراف کے ساتھ ایک کتاب تحفے میں دی اور فرمایا ’’میاں عبیداللہ! ڈائری لکھا کرو روزانہ ایک دن بڑے ادیب بن جاؤگے۔‘‘عبیداللہ نے حکیم صاحب کی نصیحت کو سینے سے لگایا۔ ڈائری لکھتے رہے، کئی سال لکھتے رہے۔ پھر جیسا کہ حکیم صاحب نے کہا تھا، عبیداللہ ادیب بن گئے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کتاب ’’کراچی جو اک شہر تھا‘‘ ہے جسے فضلی سنز کے طارق رحمن نے خوبصورت تصویروں سے مزین کرکے شایع کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔