بیمار خیالات کی حکمرانی

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 28 جولائی 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

شاہ لوئی چلا گیا، لیکن اس کی موت سے پہلے فرانس ایک حیرت انگیز تبدیلی سے دو چار ہوچکا تھا۔ فرانس کے عوام کا خون انقلاب کی آگ بھڑکا گیا۔ان کی شریانیں غیظ وغضب سے بھرگئیں۔ فرانسیسی عوام نے یورپ کے تمام قوموں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ انھیں ہر عوام دشمن حکومت کا دشمن اور اپنا دوست پائیں گے۔

فرانس آزادی کا متوالا بن گیا اور آزادی کی قربان گاہ پر جان دینا، اس کے ہر شہری کا خو شگوار مقصد بن گیا۔ جوش وخروش کے ان تند و تیز لمحوں میں فرانس کے بچے بچے کی زبان پر آزادی کا ایک ولولہ انگیزگیت مچل رہا تھا۔ یہ گیت ان کے آتشیں رویہ کے دھن میں گونجتا ہوا انھیں میدان جنگ کی طرف لے چلتا اور وہ تمام مشکلوں اور رکاوٹوں کو عبورکرتے چلے جاتے۔

یہ گیت آزادی آف دی رہائن کا جنگی ترانہ تھا ، جو اب بھی فرانسیسیوں کا ملی نغمہ ہے۔ وہ بادشاہ کی طویل عمری کے فضول گیت گانے کے بجائے مادر وطن کی مقد س محبت اورآزادی ، محبوب ترین آزادی کے گیت گاتے تھے۔ پورے فرانس میں خوفناک قحط تھا۔ اسلحہ توکیا کھانے کو اناج ، پہننے کوکپڑا اور جوتے تک نہ تھے۔ بہت سی جگہوں پر شہریوں سے کہاگیا کہ وہ اپنی فوج کے لیے قربانی دیتے ہوئے اپنے جوتے اسے دے دیں۔

محب وطن عوام بڑی مشکل سے حاصل ہونے والا اناج اٹھا کر فوج کو دے دیتے اور خود کئی کئی روز فاقے سے رہتے۔ چمڑے کی چیزیں، باورچی خانے کے برتن، بالٹیاں، ٹوکریاں اورکئی طرح کی چیزیں فوج کو درکار تھیں۔ پیرس کی گلیوں میں لوگ یہ چیزیں اٹھائے فوج کے منتظر رہتے۔ عام لوگوں نے اسلحہ بنانے میں مدد دینا شروع کر دی قحط بہت شدید تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

فرانس،آزادی پسند فرانس ،خوبصورت فرانس اگر چیتھروں میں ملبوس تھا توکیا ہوا اس کے سر پر تاج تھا۔ وہ اس تاج کو درپیش خطروں کا خاتمہ چاہتے تھے وہ سرحدوں پر امڈتے ہوئے دشمنو ں کو روکنا چاہتے تھے۔چنانچہ فرانس کے نوجوان مادر وطن کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرحدوں کی طرف دوڑ پڑے ۔انھیں اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں تھی۔انھیں فتح چاہیے تھی اور فرانس کا تحفظ مطلوب تھا ۔

کارلائل کاکہنا ہے کہ ’’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سبھی لوگوں کا نظریہ ایک ہو۔لوگ تو صرف ان چیزوں پر ایک جیسی سو چ رکھتے ہیں ، جوکھائی جاسکیں یااستعمال ہوسکیں ، لیکن جب ان کا نظریہ اور ایمان ایک ہو جائے تو پھر ان کی تاریخ جوش وجذبے سے لبریز اور امر ہو جاتی ہے ‘‘ ۔ فرانس کے مردوں اور عورتوں کا یہ ایمان انھیں انقلابی بنا گیا۔انھوں نے ان یادگار دنوں میں جو تاریخ مرتب کی، جو قربانیاں دیں ابھی تک ہمیں ولولہ بخشتی ہیں۔

ہم اگر ماضی بعید اور قریب کے سفر پر نکلیں اور یادوں کو اچھی طرح سے کھنگالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیاکی تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جسے کسی مرحلے پر ابتلا کا منہ دیکھنا نہ پڑا ہو ۔ ہم دنیا میں واحد قوم نہیں جو انتشار ، بدامنی، جہالت ، تشدد ، انتہا پسندی ، شورش ، بدحالی کی لپیٹ میں ہیں ہم سے پہلے امریکا ، سوویت یونین ، آئس لینڈ ، اسپین، چین ، برطانیہ ، ہنگری ، فن لینڈ، پولینڈ، کوریا، بھارت ، فرانس ، بلغاریہ ، چیکو سلواکیہ ، جاپان ، سعودی عرب ، میکسکو ، ارجنٹائن اور بہت سے دیگر ممالک بھی شورشوں ، لسانی و فرقہ وارارنہ فسادات انتہاپسندی ،اور بد حالی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔

امریکا کی خانہ جنگی میں ریاستوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 7 لاکھ50 ہزار فوجی ہلاک ہوئے جس میں انفرا اسٹرکچر ، فیکٹریاں ،کانیں ، ذرائع آمدورفت اور غذائی فراہمی کے ذرائع تباہ ہوگئے لیکن انھوں نے اور دیگر قوموں نے ہمت نہیں ہاری،اپنے حوصلے پست نہیں کیے اور اپنے بد ترین حالات کو شکست دے دی۔ مملکت روم کے حکمران اور عظیم فلسفی مارکس ادری لی نے کہا تھا ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے۔

ہمار ا ذہنی رحجان ہی ہماری قسمت کا تعین کرتا ہے اگر ہمارے خیالات افسردہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژ مردگی محیط ہوجائے گی۔ بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنا دیں گے اور بیمارخیالات ہمیں بیمار بنادیں گے ، اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہرکوئی ہم سے گریز کرے گا ، ہم سے دور بھاگے گا، پیل کے الفاظ میں آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں ہمارا ذہنی رویہ ہماری جسمانی قوتوں پر ناقابل حد تک اثر انداز ہوتا ہے جب غیر فانی شاعرملٹن اندھا ہوا تھا تواس نے بھی یہ ہی حقیقت معلوم کی تھی ’’ ذہن خود ہی اپنا مقام ہے اور خود ہی بنا سکتا ہے جنت سے جہنم اور جہنم سے جنت۔

نپو لین اور ہیلن کیلر ملٹن کے اس شعرکی مکمل تفسیریں ہیں۔ نپولین کو دنیا کی ہر چیز عظمت ، طاقت ، دولت عہدے حاصل تھی جن کی انسان عموماً خوا ہش کیا کرتا ہے پھر بھی اس نے جزیر ہ سینٹ ہیلنا میں کہا تھا میری زندگی میں مسرت کے مسلسل چھ دن بھی نہیں آئے، لیکن اندھی ،گونگی اور بہری ہیلن کیلرکہا کرتی تھی ۔ ’’ میں نے زندگی کو بہت حسین پایا ہے، تمہارے اپنے سوا تمہیں کوئی بھی خو شی نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ عظیم فلسفی اپکیٹیٹس کہتا ہے ۔ ہمیں اپنے جسم سے ورم ، پھوڑے اور رسولیاں دورکرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر وکوشش کرنی چاہیے۔

فرانسیسی فلسفی مانتیں نے یہ چوبیس الفاظ اپنی زندگی کا ماٹا قرار دیے تھے ’’انسان کوکسی حادثہ سے اس قدر ضرر نہیں پہنچتا جس قدر اس رائے سے جو وہ اس حادثے کے متعلق قائم کرتاہے ‘‘ ْ ولیم جیمز جس کا آج تک عملی نفسیات میں کوئی حریف پیدا نہیں ہوسکا وہ ہمیں بتاتا ہے کہ محض ارادہ کرکے ہم فی الفور جذبات کو نہیں بدل سکتے بلکہ اس سے ہم اپنے افعال میں تغیر پیداکر سکتے ہیں اور جب ہمارے افعال بدل جائیں گے تو ہمارے احساسات میں خود بخود تبدیلی پیدا ہوجائیگی۔

جیمز لین ایلن اپنی کتاب ’’انسان کیسے سوچتا ہے‘‘ میں لکھتا ہے جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخو د تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے جنھیں وہ چاہتا ہے بلکہ انھیں جوکہ و ہ خود ہے وہ دیوتا جو ہمارے خواہشوں اور آزوئوں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں خود ہم ہی ہیں ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کرکے ابھارکرآگے بڑھ سکتا ہے ۔ ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے اورکامیابی کی کشی میں سوار ہوسکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکارکرے گا تو وہ صرف حقیر،کمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال رہے گا۔

یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہار ے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ پاکستانی قوم میں بھی تعجب خیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی خوبی موجود ہے اور انھوں نے ہر محاذ میں یہ ثابت بھی کیا ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی بہادر قوموں میں ہوتا ہے دنیا کی دیگر قوموں کی طر ح آج ہم پر بھی مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ یہ ہماری آخری منزل ہرگز نہیں ہم بھی جلد ہی کامیابی، خو شحالی اور امن کی کشتی میں سوار ہوجائیں گے بس ہمیں اپنا ذہنی رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے فرسودہ ، افسردہ ، پژمردہ ، بزدلانہ اور بیمار خیالات سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔ اپنی سوچ یکسر تبدیل کرنا ہوگی ۔ اپنے ذہنوں سے غلط خیالات خارج کرنا ہونگے۔

دہشت گردی، غربت ، جہالت ، بیماریاں، بدامنی، انتہاپسندی ہرگزہمارا مقدر اور نصیب نہیں ہے۔اس بات پر ہمیں اعتماد ہونا چاہیے ۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ہم اعتماد کے سہارے چلتے ہیں بینائی کے سہارے نہیں ۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف انسانوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی، اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتاہے اور دل بھی نہیں اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے۔

انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے توراستہ مل جاتا ہے ۔ ایمرسن کہتا ہے جو آدمی ارادہ کرسکتا ہے، اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پاکستان کے عوام کو بس اعتماد، ارادہ ، ہمت ، حوصلہ کرنا ہوگا اور فرانس کے لوگوں کی طرٖح قربانیوں کاجذبہ پیدا کرنا ہوگا، پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہم ایک جمہوری ، خوشحالی، ترقی یافتہ اور پرامن قوم میں تبدیل ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔