احتساب سیاسی مخالفین تک محدود، ایف بی آر کے داغدار افسروں کا کچھ نہ بگڑا

شہباز رانا  منگل 30 جولائی 2019
گریڈ 21 کے ایک درجن افسران کے کیس تیار،وزیراعظم تمام تر نیک نیتی کے باوجود سیاسی وجوہ پرعہدوں سے نہ ہٹا سکے
 (فوٹو: فائل)

گریڈ 21 کے ایک درجن افسران کے کیس تیار،وزیراعظم تمام تر نیک نیتی کے باوجود سیاسی وجوہ پرعہدوں سے نہ ہٹا سکے (فوٹو: فائل)

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال ایف بی آر میں داغدارکردار کے حامل افسران کو ٹھکانے لگانے میں ناکام رہی جب کہ احتساب کا دائرہ صرف سیاسی مخالفین تک محدود ہوکر رہ گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف بی آر کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ ایف بی آر میں گریڈ 21 کے ایک درجن کے قریب افسران کے خلاف کارروائی کیلیے کیس تیارتھے لیکن وزیراعظم عمران خان اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود ان افسران کے سیاسی روابط کی وجہ سے انہیں عہدوں سے نہیں ہٹا سکے بلکہ ایسے بعض افسران کی پرکشش سیٹوں پر تعیناتیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارش پر یک دوسری کمیٹی بنائی گئی ہے،ایف بی آر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک اور سمری بھیجے گا جس میں ان افسروں کے خلاف پھر انکوائری شروع کرنے کیلئے منظوری لی جائیگی ۔

ایف بی آر نے اس سال مارچ میں بھی کرپشن اور غیرتسلی بخش کارکردگی کے حامل ان افسروں کے خلاف انضباطی کارروائی کیلئے ایک سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجی تھی جس میں وزیراعظم سے اس کی منظوری لینے کیلئے کہا گیا تھا لیکن سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے یہ سمری یہ کہ کر واپس کردی تھی کہ ان کے خلاف پہلے کی گئی انکوائری چونکہ چارسال پرانی ہے لہٰذا نئے سرے سے انکوائری کرائی جائے۔

سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مطمئن کرنے کیلئے ایف بی آر نے گریڈ 22 کے افسرمیاں سعید اقبال اور گریڈ 21 کے افسروں زاہد کھوکھر اور ذوالفقار خاں پر مشتمل تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی ۔اس کمیٹی نے ایف بی آر کو ان افسروں کے خلاف الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک اورکمیٹی بنانے کی سفارش کردی ۔یوں اس کمیٹی نے وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی کام نہ کیا۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارش کی روشنی میں ایف بی آر اس ہفتے ایک اور سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ارسال کریگا جس میں ان افسروں کے کیسوں کی 1973 کے رولز کے تحت انکوائری کی باضابطہ اجازت طلب کی جائیگی۔ان افسروں پر بوگس سیلزٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی،ناجائز طورپرٹیکس میں رعایتیں دینے اورآمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات ہیں۔ان افسروں کی طرف سے خزانے کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا تخمینہ ایک کروڑ 40 لاکھ سے لیکر 92 ارب روپے تک ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آر اور اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کی بیوروکریسی ان افسروں کو بچانے میں لگی ہوئی ہے حالانکہ ایف بی آر کی طرف سے ان افسروں کے خلاف عدالتوں اور سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کو بھیجی گئی اپنی دستاویزات سے ان پر کرپشن اور غیرتسلی بخش کارکردگی کے الزامات کے ثبوت موجود ہیں۔

وزیراعظم باربار کرپٹ لوگوں کو ٹھکانے لگانے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی اس مہم کا دائرہ ابھی تک صرف سیاسی مخالفین تک ہی محدود ہے ۔شروع میں ایف بی آر کے ان کرپٹ افسروں کی فہرست میں گیارہ نام شامل تھے لیکن اب صرف چار رہ گئے ہیں ۔ان میںبھی تین ریٹائرہوچکے ہیں،تین کے نام فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو نہیں بھیجے گئے،ایک افسر نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے آئینی دائرہ کار پر ہی اعتراض اٹھا دیا ہے۔

گزشتہ چار برسوں کے دوران ایف بی آرکے ڈیڑھ سو کے قریب افسروں کے خلاف غیرتسلی بخش کارکردگی اور انضابطی کارروائی کے قواعد کے تحت انکوائریاں چلیں لیکن کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوسکی۔ان افسروں کا تعلق ان لینڈ ریونیواور کسٹم گروپ سے ہے ۔

ان افسروں کا معاملہ ماضی میں سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی خزانہ کے سامنے اٹھایا گیا،اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے سامنے بھی رکھا گیا لیکن یہ افسر اتنے طاقتور ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کرپشن کے خلاف جہاد کے اعلان کے باوجود ابھی تک ان کا کچھ بگاڑا نہیں جاسکا ۔

ایف بی آر نے چند سال پہلے بھی ان افسروں کے خلاف انکوائریاں کی تھیں لیکن اس کیلئے وزیراعظم سے اجازت نہیں لی تھی ۔ان میں اتنے قانونی نقائص چھوڑے گئے کہ انہوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرلیے ۔چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی سے جب اس ضمن میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ ایف بی آر میں بہتری لانے پر ہے کسی انفرادی کیس کو وہ نہیں دیکھتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔