نظریاتی کجروی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 1 اگست 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گفتگوکی، اس گفتگو کے دوران ثالثی کا ذکر آیا تو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ کشمیرکے ایشو پر ثالثی کے لیے تیار ہیں ، اس آفر کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر سے کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا تھا۔ صدر ٹرمپ کے اس انکشاف نے بھارت میں طوفان برپا کردیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نریندر مودی کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑگئے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر اس گستاخی کا جواب دیں۔

امریکی صدر کے ترجمان سے جب سوال کیا کہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ نے کہا ہے کہ ’’کشمیر بھارت کے قومی وقار کا مسئلہ ہے‘‘ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ٹرمپ سے ایسا غیر ذمے دارانہ اور قومی وقار کے مسئلے پر ایسا غیر ذمے دارانہ مطالبہ نہیں کرسکتے۔

جب صحافیوں نے جواب پر زیادہ زور دیا تو مشیر امریکی صدر لیری نے کہا کہ ٹرمپ باتیں گھڑتے ہیں نہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اس تناظر میں یہ سوال ہی انتہائی نامناسب ہے۔ بی جے پی کے ایک رکن سبرامنیم نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ میں آکر اس سوال کا خود جواب دینا چاہیے۔

بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہا جاتا ہے اس جمہوری ملک کا حال یہ ہے کہ 70 سال سے کشمیری عوام کشمیر کے مسئلے پر رائے شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں اس مطالبے کی پاداش میں بھارتی فوجوں نے 70 لاکھ کشمیریوں کو قتل کروادیا لیکن یہ مسئلہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اور توانا ہوگیا ہے۔ تقسیم کے فوری بعد بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اورکشمیریوں پر ظلم کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

عوام کی طرف سے اس متنازعہ مسئلے پر رائے شماری کا مطالبہ نہ صرف جمہوری ہے بلکہ انسانی آزادی اور وقار کا مسئلہ بھی ہے جمہوریہ بھارت جب کشمیر میں رائے شماری سے انکار کرتا ہے تو وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ جمہوری قدروں کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے لیکن کشمیر پر 8 لاکھ بھارتی فوجوں کے ذریعے قبضہ جمہوریت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ بھارت کا منہ سرخ ہوگیا ہے۔ نریندر مودی کا تعلق ایک انتہائی نچلے طبقے سے ہے وہ یقینا نچلے طبقات کے مسائل سے واقف ہوں گے بھارت کو ایک سیکولر ملک بھی کہا جاتا ہے کیا بھارتی حکمران طبقہ اور بھارت کے دانشور اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی دو بڑی وجہیں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ ہے۔

بی جے پی ایک مذہبی انتہا پسند جماعت ہے اور نریندر مودی اسی جماعت کے نامزد وزیر اعظم ہیں بھارتی عوام میں منفی فکری تبدیلی لانے میں بی جے پی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کا حال یہ ہے کہ پاکستان سے پرفارم کے لیے بھارت جانے والے فنکاروں سے منتقمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ہندو دھرم میں گائے کو ماتا کہا جاتا ہے اور اس ماتا کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے ایسا ملک ایسا معاشرہ جس میں جانوروں کی پوجا کی جاتی ہو اور جانوروں کی بے حرمتی کے نام پر انسانوں کا خون بہایا جاتا ہو ،مذہب کی بات تو دور کیا انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے؟

برصغیر ہندو پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے غریب و پسماندہ ملکوں کی اولین ضرورت عوام کی معاشی خوشحالی ہے اور بھارتی سیاست کی وجہ سے دونوں ملک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کردیتے ہیں۔ ہتھیاروں کی اس احمقانہ اور انسانیت کش دوڑ کی وجہ سے برصغیر کے عوام غربت اور پسماندگی سے باہر نہیں آ پا رہے ہیں یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیکولر ملک کے دانشور اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں مضبوط بھی ہو رہی ہیں اور فعال بھی ہو رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بھارت میں پاکستان سے زیادہ آزادی فکر و اظہار ہے لیکن عملاً بھارت میں پاکستان سے زیادہ ذہنی پسماندگی پائی جاتی ہے۔ میں اس حوالے سے ایک مسلمہ پسماندگی کا ذکر بار بار کرتا رہتا ہوں کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور بھارت ایک سیکولر ریاست کہلاتی ہے ان دونوں ملکوں کے عوام کے بلکہ کروڑوں عوام کے فکری معیار کا جائزہ لیں تو بڑے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ دونوں ملک جمہوری ہیں انتخابات میں عوام کے سیاسی اور مذہبی رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ یہ کیسی دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان میں 71 سال سے کسی مذہبی جماعت کو عوام اقتدار میں نہیںلائے اس کے برخلاف عوام نے لبرل اور ترقی پسند جماعتوں کو اپنے ووٹوں سے نوازا۔ اس سے دونوں ملکوں کے قومی مزاج کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

اگر بھارتی عوام لبرل یا ترقی پسند فکر کے حامل ہوتے تو بی جے پی دو بار اقتدار میں نہ آتی۔ بھارت کے فکری ایلیٹ نے ان تلخ حقیقتوں پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ورنہ لاکھوں عوام اپنے گناہ دھونے کے لیے گنگا میں نہاتے نظر آتے۔ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اگر اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں عوام بی جے پی کو اقتدار میں لائے ہیں تو اسے ہم بھارت کا نظریاتی المیہ ہی کہہ سکتے ہیں اور بھارت کے اہل فکر اہل دانش کو اس خطرناک نظریاتی کجروی پر غور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔