زرخیز مٹی

شہلا اعجاز  جمعـء 2 اگست 2019

مسلمانوں کے تاریخی ادوارکو بغور پڑھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس قوم میں بلا کی ذہانت ، فصاحت اور شعور تھا، یقینا اب بھی یہ کہیں نہ کہیں سے چھلکتا نظر آتا ہے لیکن شاید گھٹاؤں میں کہیں چھپا سا ہے۔

کسی بھی اسلامی دورکو دیکھیے، اہل علم کو فروغ دینے میں حکمرانوں کا بھی خوب ہاتھ رہا ہے۔ بلکہ خود بہت سے حکمران بہت سے علوم پر دسترس رکھتے تھے غالباً یہ ان کا اپنا شوق اور جذبہ تھا، جس نے اپنی رعایا میں اس شعورکو اجاگرکرنے کے لیے نہ صرف کوششیں کیں بلکہ بہت سا پیسہ بھی صرف کیا، شاید اسی لیے ایسے ایسے شاہکار سامنے آئے کہ جن کی ایجادات اور تحقیقات پر نئے زمانے میں بھی ریسرچ کے بعد انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی ماضی میں بھی کم مواقعے اور وسائل کے باوجود ان کی خدمات سے مستفید ہوئے اور حال میں بھی زیادہ وسائل کے باعث فائدہ اٹھایا جا رہا ہے یہاں تک کہ دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیارکرچکی ہے۔

اسلامی فتوحات اور تبلیغ و اشاعت دین کے جس امر میں خلوص شامل رہا ہے اس کے باعث دنیا میں سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے ترقی ہوتی رہی۔ انسانیت کی خدمت اور وحدانیت پر یقین کے تصور نے باغیانہ اور سرکشی کے جذبات کی نفی کرتے آگے بڑھنے اور دنیا کو حال اور مستقبل کے لیے ایک خوبصورت کھیت کی مانند پرورش دینے کے عمل پر رواں رکھا۔ اموی دور دیکھ لیں یا عباسی خلفا مدینہ منورہ سے لے کر غزنی اور ہرات تک مختلف شہروں میں علم و فنون کے عظیم مراکز ابھر کر سامنے آئے جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ سیکولر علوم و فنون کی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی۔ اسی لیے مسلم انجینئرز، کیمیا گر اور طبیعات، ریاضی اور دوسرے اہم مضامین جن کی انسانی زندگی میں بہت اہمیت ہے سامنے آئے۔

اسلام کے ابتدائی ایام میں جنگ و جہاد کے باعث مسلمان خاصے مصروف رہے اور انھیں علوم و فنون کی طرف توجہ دینے کا موقع نہیں ملا لیکن بنی امیہ کے دور میں علم، فقہ اور تفسیر پر چند کتب مرتب ہوئیں اور حدیث کی تدوین شروع ہوئی، امیر معاویہ کا پوتا خالد بن یزید نے یونان سے علوم قدیم کی بہت سی کتب منگوائیں اور عربی زبان میں ترجمے کروائے، اور خود بھی علم کیمیا اور علم طب پر چند رسالے تصنیف کیے۔

خلیفہ ابو جعفر منصور نے تاریخ اسلام میں پہلی بار دارالترجمہ کے نام سے تصنیف و تالیف کا علیحدہ شعبہ قائم کیا اور یونان کی قدیم کتب کے ترجمے کرائے۔ ایک عیسائی طبیب جارج کو اپنے دربار میں بلاکر علم طب کی کتابوں کے ترجمے کرنے پر مامور کیا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اس دارالترجمہ کا نام بیت الحکمت رکھا اور اسے ایک مستقل محکمے کی صورت دے کر مختلف اقوام و مذاہب کے بڑی تنخواہوں پر ملازم رکھا اور یوں کئی مختلف زبانوں پر مبنی کتب کا ترجمہ عربی زبان میں کرایا گیا یوں سقراط، ارسطو، افلاطون، بقراط، جالینوس، اقلیدس اور بطلیموس اور دیگر فلاسفرز اور حکیموں کو عربی زبان میں ذوق و شوق سے پڑھا گیا۔

مامون الرشید کے دور میں دنیا کی پہلی رصدگاہ ’’رصد مامون‘‘ وجود میں آئی جس سے سورج، چاند اور سیاروں کے حالات پہلی بار دنیا کے سامنے آئے۔ کرہ ارض کی پیمائش بھی اسی دور میں ہوئی کہ زمین کا محیط چوبیس ہزار میل ہے۔ اسی دور میں ابوالحسن ایک ہیئت دان نے مختلف سائنسی تجربات کے علاوہ دوربین بھی ایجاد کی۔

مسلمانوں کی ان ایجادات کے باعث علم و فنون کا شوق ابھرتا گیا، تحقیق کا جذبہ بڑھتا گیا، درسگاہوں کی ضرورت ان تمام اہل علم کے شوق اور تجسس کے جذبے کو تسکین دینے کے ساتھ بانٹنے کے عمل کو بھی نمو دیتا رہا۔ غرض کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد سندھ میں منصورہ، ٹھٹھہ، ملتان اور تیرہویں صدی میں شمالی ہندوستان میں باقاعدہ درسگاہوں کا سراغ ملتا ہے۔ دارالحکومت دہلی میں ایک ہزار سے زائد مدارس قائم تھے، جہاں جملہ مروجہ علوم عقیلہ و نقلیہ کی تعلیم و تربیت کا بہترین نظام موجود تھا۔

ان دینی مدارس کی تعلیم و تربیت کا محور دین ہے، جس نے انسان کو شعور، علم و یقین، تحقیق، سماجی و سیاسی ضروریات، معاشی پہلو اور دیگر دنیاوی امور میں سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بشرط یہ کہ اس تعلیم و تربیت میں خودداری، اور انسان نوازی کے بنیادی مقاصد شامل ہوں تاکہ ایک عالم گیر سطح پر ایک ایسا معاشرہ بننے کی راہ ہموار ہو جو خود غرضی، کرپشن اور دوسری اخلاقی برائیوں سے پاک اور انسانیت کی فلاح کے لیے خلوص سے کام کرے۔

ہم نے کئی ایسے ویڈیوز دیکھے ہیں کہ جن میں خاص کر مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر اساتذہ کے مظالم دکھائے گئے حالانکہ بہت سے دوسرے تعلیمی مراکز پر بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال دیکھی جاسکتی ہے لیکن دین کے حوالے سے وائرل کرنا گویا مذاق بن چکا ہے۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ تربیت میں انسان نوازی بھی اہم مقصد ہے ایسا ہرگز نہیں کہ دین کی تعلیم حاصل کرنے والے اور دینے والے اس مقصد پر توجہ دیں کیونکہ اس طرح کی تعلیم بالکل اسی طرح ہے گویا کاغذ کا لباس زیب تن کرلیا ہو جو ذرا سا پکڑنے پر پھٹ جائے اور گیلا ہونے پر چیتھڑے چیتھڑے ہوجائے۔

ابتدائی سطح پر حضور اکرمؐ کی محبت و عظمت کا نقش طلبا کے دل پر بٹھایا جائے اور اس کے ساتھ ہی آل و اصحاب اور اولیا کی محبت و عظمت دل میں پیدا کی جائے۔ اس کے علاوہ صداقت، افادیت، خودداری و خود شناسی، تعلیم اور متعلقات تعلیم کے ادب و احترام، مفاسد سے پاک، سیر و تفریح اور ایسے پرسکون تعلیمی ماحول کو جہاں طالب علم کے دل میں وحشت و انتشار فکر پیدا نہ ہوں، لازمی قرار دیتے ہیں۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں قائم تیس ہزار مدارس کو رجسٹرڈ کرے گی۔ جہاں انگریزی، حساب اور سائنس بھی نصاب کا حصہ ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیر تعلیم نے ان مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے امتحانات بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے یہ امتحانات حکومت کروائے گی اور اس کا پہلا بیج اگلے جون تک متوقع ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے مدارس کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو ان مدارس کی ضرورت اور موجودگی کا احساس ہے اور وہ جس مثبت انداز سے اس کے حوالے سے کام کرنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہوتا رہے تو ان مدارس سے ہمیں الخوارزمی، البیرونی، جابر بن حیان، ابن سینا اور ارشمیدس جیسے ذہین، مفکر، ماہر کیمیا، ماہر طبیعات اور نجانے کتنے زرخیز ذہن ملیں گے بس ذرا توجہ کی ضرورت ہے ورنہ یہ مٹی تو واقعی بہت زرخیز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔