حکومت کوداخلی و خارجی چیلنجز درپیش، اپوزیشن نا اتفاقی کا شکار

ارشاد انصاری  بدھ 21 اگست 2019
اپوزیشن جس نے عوام کی آواز  بننا تھا وہ ایشوز کی سیاست کرنے کی بجائے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ فوٹو: فائل

اپوزیشن جس نے عوام کی آواز بننا تھا وہ ایشوز کی سیاست کرنے کی بجائے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: داخلی و خارجی سطح پر درپیش شدید نوعیت کے چیلنجز سے نبرد آزما پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا پارلیمانی سال مکمل کر لیا ہے حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اوراپوزیشن کی جانب سے حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر شائع کرنے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک سال پہلے کی مہنگائی اور موجودہ مہنگائی کے اعدادوشمار پر مبنی نئے پاکستان و پرانے پاکستان کے تجزیے پیش کئے جا رہے ہیں۔

اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس ایک سال کے دوران مہنگائی نے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے لیکن عوام کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے اپوزیشن جس نے عوام کی آواز  بننا تھا وہ ایشوز کی سیاست کرنے کی بجائے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اورملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت پابند سلال ہے اور عوامی مسائل اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاریوں کے شور شرابے میں دب کر رہ گئے ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اب حالات بہتر ہونگے، البتہ اس حوالے سے وزیراعظم نے قوم کو آگاہ کرنا تھا لیکن وزیراعظم کی جانب سے پروگرام ملتوی کردیا گیا جس پر بھی بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک کی بیل بھی منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ابھی حال ہی میں بلائی جانے  والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی عدم شمولیت نے اس پلیٹ فارم کی سنجیدگی پر بہت سے سوالات اٹھادیئے ہیں اگرچہ رہبر کمیٹی کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک کو موثر و فعال بنانے اور لاک ڈاون کی باتیں کی جارہی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن نے تو تن تنہا بھی لاک ڈاون کرنے کے عزم کا اظہار کردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت حکومت کے خلاف لاکھ ڈاون میں انکے ساتھ نہیں بھی آتی تو بھی وہ لاک ڈاون کریں گے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لاکر لاک ڈاون کیا جائے گا۔

رہبر کمیٹی نے بھی لوگوں کو چارج کرنے کیلئے اپنا روڈ میپ دیدیا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن کی اب تک کی کوششیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور عملی طور پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اب مزید اہم ڈویلپمنٹس سامنے آئی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پارلیمانی سال کی تکمیل کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا  اہم ترین فیصلہ سامنے  آیا ہے۔

اس فیصلے نے جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع سے متعلق کنفیوژن و قیاس آرائیوں کے آگے بند باندھ دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ توسیع کا فیصلہ علاقائی سلامتی کے ماحول کے پیش نظر کیا گیا ہے  لیکن وزیراعظم کے اس اعلان کے ساتھ ہی آرمی چیف کے عہدے کی توسیع بارے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بطور اپوزیشن رہنما موقف کو لے کر خوب تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ عمران خان نے بطور اپوزیشن رہنما اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق چیف  آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کی خبروں کو لے کر اس وقت کی ن لیگ کی حکومت پر شدید تنقید کی تھی اور ایسے فیصلوں کو اداروں کی کمزوری سے تعبیر کیا تھا اور باقاعدہ مغرب و عالمی جنگوں کے حوالے  دے کر موقف واضح کیا تھا کہ جنگوں کے دوران بھی اداروں کے سربراہوں کی ملازمتوں میں توسیع نہیں کی جاتی  کیونکہ اداروں کے اپنے میکنزم ہوتے  ہیں جسکے تحت چلتے ہیں۔

آج عمران خان کا اپنا انٹرویو ان کے گلے پڑا ہے اور اسی انٹرویو کر لے کر  ان کے مخالفین ان پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کیا جانیوالا یہ فیصلہ اس وقت ملکی و غیر ملکی میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس بارے گذشتہ دور حکومت میں آرمی چیف کی جانب سے صحافیوں کو دی جانیولای بریفنگ کو لے کر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ پاکستانی معیشت جب ساڑھے پانچ فیصد کی شرح سے زیادہ پر ترقی کر رہی تھی، جب حصص بازار کا انڈکس 53 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر چکا تھا ، جب ملکی اور غیر ملکی قرضے معیشت کے 79 فیصد تھے، جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود چھ فیصد تھی اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیدہ صحافیوں کو ایک بریفنگ میں ملکی معیشت کی صورتحال پر اضطراب کا اظہار کیا تھا اور اسحاق ڈار کو ملکی معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیا تھا۔ آج جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود ساڑھے بارہ فیصد ہو چکی ہے، قرضے معیشت کے 96 فیصد پر پہنچ چکے ہیں۔ معیشت کی شرح نمو تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔

افراط زر کی شرح بارہ فیصد کے قریب ہے۔ٹیکس وصولیوں میں تاریخی شارٹ فال ہے ملک غربت بے روزگاری اور مہنگائی کے شکنجے میں پھنس چکا ہے اور بھارتی آزاد کشمیر لینے کی بات کرنے لگے ہیں تو ایسے موقع پر خطہ کی صورتحال کے تناظر میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے  اس توسیع کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے جوڑا جا رہا ہے ۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خطے کی غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر ملک کے نازک ترین دور کا اہم ترین فیصلہ ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ ایسے وقت میں پاک فوج کی کمان ایک مرتبہ پھر سنبھال رہے ہیں جب ملک کو گھمبیر اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جبکہ افغانستان کے امن کے لیے پاکستان کے کردار کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے اور افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے پاس ڈلیور کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں مگر موجودہ قیادت کیلئے اب  یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ جو حالات بن رہے ہیں ان میں وہ امریکہ کی منشاء کے مطابق ڈلیور کر بھی پائے گی یا نہیں۔

دوسری طرف کشمیر کے ایشوء پر بھی اہم پیشرفت ہوئی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ رابطہ، کشمیر کے مسئلے پر تناؤ کم کرنے کا پیغام دیا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مسئلے پر خطے میں پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پیر کی شب رات 10 بجے ہونے والی گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کو مودی کے اقدام کی وجہ سے خطے کی صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ مودی حکومت کے پانچ اگست کے یک طرفہ اقدام نے خطے کے امن و امان کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی اور کہا کہ خطے کا امن برقرار رہنا چاہیے اور اس حوالے سے امریکی صدر نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگاہ کیا، وزیراعظم  عمران خان نے مطالبہ کیا کہ بھارت بین الاقوامی معاہدے کی پاس داری کرے، کشمیر کے مسئلے کا حل سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کرے جس کا وہ پابند ہے اور وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تنازع کے حل کے لیے صدر ٹرمپ اپنا کردار ادا کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔