کشمیر کا غم

ایاز خان  جمعـء 30 اگست 2019
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

تال میل کی ایسی مثالیں دنیا میں کم ہوں گی جیسی بھارتی حکومت اور اس کے میڈیا کے درمیان ہے۔ میڈیا مسلسل جنگی جنون پیدا کرتا ہے اور بھارتی حکومتی دنیا کو یہ تاثر دیتی ہے کہ سب کچھ نارمل ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ اتنے عرصے بعد لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے یہ تال میل کہاں سے نظر آگئی۔

دراصل بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی میڈیا ٹاک دیکھنے کا موقع ملا تو میں سوالات اور ترجمان رویش کمار کے جوابات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ میڈیا بریفنگ میں تمام رپورٹرز کے لوڈڈ سوال تھے کہ پاکستان کے وزیرمشیر بیانات اور ٹویٹس کے ذریعے جنگی ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ترجمان اچھے بچوں کی طرح سر ہلا کر ان کی تائید کر رہے تھے۔ سوال ہندی میں پوچھا جاتا تو وہ پورا جواب ہندی میں دینے کے بعد اس کا لفظ بہ لفظ انگریزی میں ترجمہ کرتے گویا سارے سوال اور سارے جواب عالمی برادری کے لیے تھے۔

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کے چار ہفتے مکمل ہونے کو ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ چپے چپے پر غاصب فوج موجود ہے۔ بھارتی فوج حریت رہنماؤں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر کے ہندوستان کے مختلف شہروں کی جیلوں میں منتقل کر چکی۔ خواتین کی آبروریزی کی اطلاعات الگ ہیں۔

پرائمری اور مڈل لیول کے اسکول کھولے گئے لیکن والدین اپنے بچوں کو بھجوانے پر تیار نہیں ہیں۔ پانچ اگست سے اب تک کشمیری مرد اور خواتین کرفیو توڑ کر 500 سے زائد مظاہرے کر چکے ہیں۔ سری نگر کے علاقے سورہ کے کشمیریوں کی جرات کو سلام، جنھوں نے اب تک بھارتی فوجیوں کو وہاں داخل نہیں ہونے دیا۔ یہ کشمیری دن رات جاگتے ہیں، اپنے علاقے اور خاندانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں کو داخل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

یہ ساری اطلاعات کسی پاکستانی میڈیا کی طرف سے دنیا تک نہیں پہنچ رہیں بلکہ یہ معلومات سی این این، بی بی سی، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارڈین اور دیگر ایسے میڈیا ہاؤسز جو مغرب کے لیے انتہائی معتبر ہیں، دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ مودی سرکار نہتے کشمیریوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن انڈین میڈیا اور مودی سرکار مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔

ادھر بے چاری ہماری حکومت کشمیر ایشو پر دن رات سفارتکاری کرنے کے باوجود شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سفارتکاری کو ناکام کہنے والے جواز پیش کرتے ہیں کہ ابھی تک وہاں سے کرفیو نہیں اٹھوایا جا سکا۔حکومت روزانہ کی بنیاد پر اقوام عالم کو جھنجھوڑتی ہے لیکن وہاں سے ایک ہی جواب آتا ہے کہ ہم صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

بچپن سے اب تک اپنے سارے حکمرانوں کو مسلم امہ کا دم بھرتے سنا ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ کہیں کھو گئی ہے۔ اس کی تلاش کے لیے میڈیا میں اشتہار چلانے چاہئیں۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میںرہا اور جب وقت آیا تو مسلم امہ کے ایک قریبی اماراتی بھائی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دے رہے تھے۔اس وقت مسلم امہ کے تمام بڑے ممالک کے مفاد بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔

صدقے جاؤں میں اپنی سیاسی قیادت کے جو اب بھی  امید سے ہے اور کہتی ہے کہ کشمیر پر مسلم امہ ہمارے ساتھ چلے گی۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ 70 سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کوعذاب میں مبتلا رہتے ہوئے لیکن ان کی جیسی حالت اب ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔

آپ کو یقیناً یاد ہو گا کہ جب بھارتی پارلیمنٹ نے پانچ اگست کا غیر آئینی اقدام کیا اور مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی تو اس کی پہلی حمایت انڈیا میں تعینات یو اے ای کے سفیر نے کی تھی۔ وزیراعظم سعودی عرب کے ولی عہد کو تین بار فون کر چکے ہیں۔ ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جب ہمارے وزیراعظم محمد بن سلمان کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں تو وہ جواب میں کیا کہتے ہیں۔اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ بتوں سے تم کو امیدیں۔۔۔۔۔

کشمیر پر ہماری کوششیں تاحال بار آور نہیں ہو سکیں، یہ درست ہے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بات ہوئی۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم اور وزیرخارجہ روزانہ فون پکڑ کر بیٹھتے ہیں اور دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرتے ہیں، بیانات اور ٹویٹس الگ ہیں۔ اجلاس پر اجلاس ہوتے ہیں۔

آج دن 12 بجے سے ساڑھے 12 بجے تک کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پوری قوم سے احتجاج کے لیے گھروں اور دفاتر سے نکلنے کی اپیل کی گئی، ٹریفک بند رکھنے کی بھی درخواست ہے۔ احتجاج ہر ہفتے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے آیندہ ماہ 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی میں خطاب تک ہمیں یہ مومینٹم برقرار رکھنا ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ 27 ستمبر کو ادھر وزیراعظم عالمی لیڈرں سے اقوام متحدہ میں خطاب کریں گے ادھر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بھولے بادشاہو، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ دنیا مفادات کے تحت چلتی ہے، ملکوں کے درمیان تعلقات بھی مفادات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ جہاں جتنا زیادہ مفاد وہاں اتنا زیادہ تعلق۔ بھارت کی معیشت جب ترقی کی منازل طے کر رہی تھی آپ نے معیشت کا ریورس گیئر لگایا ہوا تھا۔اب پچھتانے سے کیا ہوگا؟

بھارتی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد انڈیا انڈر پریشر ہو گیا تھا۔  اب وہ پریشر سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم اوروزیر خارجہ کا یہ خدشہ درست لگ رہا ہے کہ بھارت فالس فلیگ آپریشن کر کے دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

بھارت کافی عرصے سے یہ پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دہشت گرد مقبوضہ وادی میں داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب اس پراپیگنڈے میں شدت آتی جا رہی ہے۔ وہ افغان حکومت کو بھی اکسارہا ہے کہ پاکستان مغربی سرحد کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔حالیہ تاریخ میں 27 فروری نہ ہوتا تو شاید بھارت اب تک کوئی ایڈونچر کر چکا ہوتا۔ کچھ کرنے سے پہلے اسے اپنے طیاروں کی تباہی اور ابھی نندن کی گرفتاری یقینایاد آتی ہوگی۔

ریاست پاکستان یہ واضح کر چکی ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن کسی بھی مس ایڈونچر کے لیے تیار ہیں۔ قوم کے لیے یہ حوصلہ افزا ہے۔ہمارا میڈیا بھی کشمیر ایشو پر انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ٹی وی اسکرینیں اور اخبارات کے صفحات کشمیر کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ چینلز کا ایئر ٹائم اور پرنٹ میڈیا کے کالموں کی اکثریت کا موضوع صرف اور صرف کشمیر ہے۔

کشمیریوں کی سب سے زیادہ امیدیں بھی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے کچھ نہ کر سکا تو وہ سب سے زیادہ مایوس بھی ہم سے ہوں گے۔ مسلم امہ کا رونا بعد میں رونا چاہیے، پہلے ہمیں اپنے اردگرد نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ ہماری دینی اور مذہبی جماعتیں کہاں ہیں، جماعت اسلامی کے سوا کسی اور جماعت نے زحمت نہیں کی کہ کشمیریوں کے لیے کسی جلسے جلوس یا ریلی کا اہتمام کرے۔ سراج الحق اکیلے ہی یہ محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔۔ لیفٹ والے مودی سرکارکے اقدامات کے خلاف بڑھ چڑھ کر احتجاج کر چکے۔

ہاں یاد آیا، کشمیر کمیٹی کے ایک چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ اسلام آباد لاک ڈاؤن سے پہلے کشمیریوں کے لیے ایک مارچ کا اہتمام ضرور کریں۔کشمیر کا غم انھیں بھی تو ہو گا یا شاید وہ بھی مسلم امہ کے ساتھ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔