کیا ہم سفاک ہوچکے ہیں؟

شہلا اعجاز  جمعـء 30 اگست 2019

بارہ ساڑھے بارہ کا وقت تھا، دکانیں پوری طرح سے کھل چکی تھیں، گلستان جوہرکا وہ روڈ عام طور پر خاصا مصروف رہتا ہے۔

لہٰذا اس وقت بھی گاڑیوں کی بے ترتیب پارکنگ اسکوٹر والوں کا ہجوم، ٹھیلے والوں کا شور جاری تھا گو یہ مین روڈ تو نہ تھا لیکن رش کم نہ تھا، گاڑی سے آگے اسکوٹر والے کو شاید کچھ زیادہ ہی جلدی تھی اسی لیے وہ شارٹ کٹ سے آگے بڑھ گیا، ابھی ہجوم ذرا پھنسا سا تھا ایک دوسرے سے آگے نکلنے سامنے سے آنے والوں سے بحث و تکرار شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ سائیڈ کے کسی بلڈنگ پروجیکٹ کی جانب سے کوئی تیزی سے دوڑتا آیا، کون تھا کیوں بھاگا چلا آرہا تھا یہ بھی سمجھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ دھڑام سے اسکوٹر سے یوں ٹکرایا کہ جیسے اسے کچھ نظر ہی نہ آرہا ہو۔

اتنے میں بنگلوز کا سیکیورٹی گارڈ اور اس کے ساتھ چند لوگ بھی دوڑتے چلے آئے، ٹکر لگنے سے اس کی برق رفتاری میں ایسا بریک لگا کہ پھر وہ شاید دوڑ کے قابل ہی نہ رہا، سیکیورٹی گارڈ نے اسے فوراً بازو سے جکڑا اور وہ کچھ لنگڑاتا ہوا اس چھوٹے سے قافلے کی معیت میں دوبارہ گیٹ کی جانب بڑھتا نظر آیا، اس نے صاف ستھری نئی سی ٹی شرٹ اور فیشن زدہ پاجامہ پہنا ہوا تھا بال بھی جدید تراش خراش کے تھے جنھیں بڑے اسٹائل سے سنہری رنگت میں رنگا ہوا تھا، عمر اندازاً پچیس چھبیس برس ہوگی لمبا چوڑا اچھا بھلا تندرست توانا، کھلی صحت مند رنگت اگر لوگ اسے یوں پکڑ کر نہ لے جاتے تو وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ محسوس ہوتا۔

’’کیا ہوا تھا بھائی؟‘‘

’’اجی چوری کرنے آیا تھا، گھر کا گیٹ کھلا دیکھ کر اندر گھس گیا تھا پر اسے شاید پتا نہ تھا کہ گھر کا مالک باہر جانے کے لیے گاڑی پارک کر رہا تھا اسے اندر جاتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا۔‘‘ اس کے بعد کی کہانی کو جاننا ضروری نہ تھا کیونکہ اس نوجوان کا اس طرح برق رفتاری سے بنا کچھ دیکھے جانے دوڑ لگانا سارے معاملے کو سلجھا گیا تھا ، اسے کسی نے نہیں مارا پٹا تھا ہاں البتہ اس نے خود اپنے آپ کو اسکوٹر سے ٹکرا کر زخمی کر لیا تھا۔

سنا تھا مالک مکان اور سیکیورٹی گارڈ نے اسے پولیس کے حوالے کردیا تھا، اس نوجوان کی شکل اور حلیہ آج بھی یاد ہے۔اس کے چہرے پر بے روزگاری کی تھکن اور جھنجھلاہٹ نہ تھی، اس کی صحت برے حالات کی غمازی بھی نہ کر رہی تھی اس کا فیشن زدہ ہیئرکٹ اور لباس بھی گواہی دے رہا تھا کہ وہ نئے دور کے ہپ ہاپ نوجوانوں کی لائن میں کھڑے ہونے کو ہی عزت سمجھتا ہے چاہے۔

اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے، خدا جانے وہ تاش کھیلتا تھا یا سگریٹ نوشی بھی کرتا تھا، نجانے کن دھندوں میں الجھا رہتا تھا لیکن اس کا بدنام اور خطرناک چوری جیسا عمل یہ ضرور ثابت کر رہا تھا کہ اس کی تربیت جیسے بھی انداز میں ہوئی ہو اس نے پرائمری کا قاعدہ بھی نہ پڑھا ہو لیکن اسے اپنی زندگی میں چمچماتی روشنیاں چاہئیں، عیاشی اور لطف چاہیے اسے خوب پیٹ بھر کر کھانا ملتا رہا تھا کیونکہ اس کے گال صحت مندی سے چمک رہے تھے۔

وہ چند دنوں کا بھوکا ہرگز نہ تھا کہ اسے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چوری کرنے کی ضرورت پڑی، ایسے میں وہ واقعہ یاد آتا ہے جب ایک مجبور ماں نے اپنے بیٹے کی بھوک سے مجبور ہوکر ایک نان بائی کی دکان سے روٹی چرائی تھی۔

پکڑے جانے پر داروغہ کے حوالے کیا گیا، منصف نے بھی اسے چور قرار دیا اور جب رحم دل منصف کو پتا چلا کہ وہ مجبوری اور غربت سے گھری ماں روزگار نہ ملنے اورگھر میں کسی طاقتور مرد کی غیر موجودگی کے باعث خود چوری جیسے شرمسار کام میں ملوث ہوئی تو اس نے نا صرف اس مجبور اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ماں کے چارجز ادا کیے بلکہ اس کے لیے اپنی جانب سے وظیفہ بھی مقررکیا کیونکہ اس منصف کی نظر میں چور وہ ماں نہیں بلکہ وہ خود اور سارا معاشرہ بھی تھا کہ جس نے ایک مجبور دکھیاری ماں کی خبر گیری نہ رکھی اور یوں اسے چوری جیسے مکروہ فعل میں مجبوراً ملوث ہونا پڑا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جس نہج پر نکل پڑا ہے وہاں تربیت اور تعلیم دو الگ الگ راہیں نظر آرہی ہیں کیونکہ بہت سے تعلیم یافتہ بظاہر باشعور افراد بھی ایسے احمقانہ اور جارحانہ رویے اختیار کر لیتے ہیں کہ اس کے آگے ان کی ڈگریاں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ مجرم، ملزم اور مجبور لوگوں کو ہم ایک ہی کیٹگری میں کھڑا نہیں کرسکتے کیونکہ ہوس، عیاشی، مجبوری، مادیت پرستی اور مقابلے کی دوڑ انسان کو اس قدر مفلوج کردیتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے بڑے بڑے جرم میں ملوث ہوتا چلا جاتا ہے ایک کے بعد ایک غلطی کرتا چلا جاتا ہے۔

پاکستان سے لے کر بھارت تک میں moblynching یعنی قانونی راستہ اختیار کیے بغیر کسی کو مارنا پیٹنا اور جان سے مار دینے کا عمل خاصا نظر آنے لگا ہے۔ بھارت میں تو یہ عمل مسلمانوں اور کم حیثیت کے ذات پات کے مسائل میں الجھے لوگوں پر اس قدر عام ہے کہ جس نے دنیا بھر میں اس حوالے سے بھارت کا نام خاصا روشن کیا ہے البتہ پاکستان میں غالباً پڑوس سے ہی متاثر ہوکر اس ہتھکنڈے کو استعمال کیا گیا ہے جس میں کچھ کیسز میں تو باقاعدہ سازش کا عنصر شامل نظر آتا ہے لیکن دنیا بھر میں اسے خوب ہی اچھالا گیا ہے۔

یقینا یہ ایک انتہائی جارحانہ اور اذیت ناک عمل ہے۔ جس میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال کا کیس، سیالکوٹ کے دو حفاظ بھائی مغیث بٹ اور منیب بٹ، کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کا کیس، جب کہ لاہور میں مسیحیوں کے احتجاجی جلوس کی لپیٹ میں آنے والے ایک مسلمان شخص کا کیس اور ایسے بہت سے دوسرے کیس جس میں خاص طور پر چوری اور لوٹ مار کرنے والے کو ہجوم کی جانب سے مار پیٹ اور ہلاکت کے کئی کیس شامل ہیں۔ سیاسی، مذہبی اور سازشوں سے پرے Moblynching کے واقعات میں ہمارے معاشرے میں ابھرتی بے رحمی اور سفاکی کا ذکر بڑے زور شور سے کیا جاتا ہے تو وہیں اس امر پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

ہمارے ہاں لوگ بڑے بڑے جرم کرکے سرکاری سیکیورٹی اہل کاروں کے حوالے تو کردیے جاتے ہیں لیکن ان کی سزا اور مظلوم کی شنوائی اور اس کے نقصان کے ازالے کے لیے کوئی خاطر خواہ کارروائی نظر نہ آنے کے باعث لوگوں میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور خود فیصلے کرنے کی احمقانہ سوچ کو تحریک مل رہی ہے جو یقیناً غلط ہے۔

ہمارے یہاں moblynching کی سزا ہے لیکن ہماری سوچ، تعلیم و تربیت میں فقدان کے باعث ایک کے بعد دوسرا کیس نظر آتا ہے، چاہے وہ چودہ سالہ ریحان کا کیس ہو یا مظلوم پندرہ سالہ شازیہ کا۔ ہم اچانک ڈنڈا لے کر اپنی سوسائٹی کو ہنکا نہیں سکتے لیکن ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم سب بے دردی، سفاکی، بے رحمی اور خود غرضی کے لبادوں میں کیوں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم کیا مس کر رہے ہیں ذرا سوچیے تو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔