بلوچستان سے دریافت ہونے والی ’ممی‘ کو جعلی کہا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا ، زبیر احمد مدنی

رضوان طاہر مبین  منگل 3 ستمبر 2019
لگتا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ مصروف ہونا پڑے گا، ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ کے روح و رواں زبیر احمد مدنی کے حالاتِ زیست

لگتا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ مصروف ہونا پڑے گا، ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ کے روح و رواں زبیر احمد مدنی کے حالاتِ زیست

وہ قدیم تاریخ کی شد بد۔۔۔ سائنسی پس منظر۔۔۔ فلسفے کا ادراک اور سیاسی شعور جیسی گہری جہتوں کا ایک سنگم ہیں۔۔۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے سینے میں تجربات اور مشاہدات کا ایک انگار بھی روکے رکھا ہے۔۔۔

طویل ملاقات میں انہوں نے بہت سے بے باک خیالات اور تلخیوں کا اظہار ہمارے سامنے بھی کیا، لیکن پھر اس پر ’راز داری‘ کی چٹخنی لگا دی۔۔۔ جس پر اِس ناچیز نے صحافتی اصطلاح میں ’آف دی ریکارڈ‘ کا مضبوط تالا ڈال دیا۔۔۔ کیوں کہ یہ صحافی کا پیشہ ورانہ فرض جو ٹھیرا۔۔۔! اس کے باوجود بھی اس گفتگو میں اس دیس سے رغبت رکھنے والے اور تاریخی معلومات کے متلاشیوں اور عام قارئین کے ذوق کی تسکین کا بہت سا سامان ہے۔۔۔

یہ ’قومی عجائب گھر‘ میں واقع ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ سے 37 برس سے وابستہ زبیر احمد مدنی ہیں۔۔۔ اس ’لیبارٹری‘ کے قیام کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’1982ء میں جنرل ضیا الحق نے قرآن مجید کے قدیم نسخوں کے ضعیف اوراق دیکھے تو اسے محفوظ بنانے کے لیے سیکریٹری ثقافت مسعود نبی نور سے گفت وشنید کی، پھر ایسے دو نسخے اٹلی اور جرمنی بھجوائے اور ایک نسخے پر غالباً 10 لاکھ روپے سے زائد صرف ہوئے، حکام کے آمدورفت کے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔۔۔ چناں چہ جنرل ضیا کی خواہش پر پروین زیدی کی سرکردی میں 1983ء میں کراچی میں ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ قائم کی گئی، پروین زیدی برٹش میوزیم میں مخطوطات کی حفاظت کی تربیت دیتی تھیں اور ’جناح پیپرز‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر زوار حسین کی اہلیہ تھیں۔‘

’کاغذ محفوظ بنانا خالصتاً سائنسی کام ہے؟‘ ہمارے اس خیال پر وہ بولے کہ ’خالصتاً تو نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ جس چیز کے بارے میں آپ کام کر رہے ہیں، اس کے بارے میں رجحان بھی ضروری ہے۔ جیسے کوئی کتاب ہے تو اس کے موضوع اور زبان وغیرہ کا علم ہونا چاہیے۔‘

ہمارے ہاں کاغذ کی چیزوں کی حفاظت کے لیے عام طور پر ’کڑک پلاسٹک کوٹنگ‘ (لیمینیشن) اختیار کی جاتی ہے، زبیر مدنی نے بتایا کہ 1970ء کے عشرے کے بعد نایاب کاغذات کی ’لیمینیشن بنانا بند کر دی گئی، کیوں کہ کاغذ پھیلتا اور سکڑتا ہے، اسے ہوا نہ ملے تو 20، 25 سال کے بعد یہ خراب ہونے لگتا ہے۔ ’لیمنیشن‘ کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ یہ نہ دُہرایا جا سکنے والا عمل ہے۔ جب لیمینیشن کی گئی بے شمار نادر ونایاب چیزیں خراب ہونے لگیں، تو قدیم چیزوں کے تحفظ پر کام کرنے والے عالمی اداروں نے یہ اصول بنا دیا کہ اب صرف وہی طریقہ اپنایا جائے، جو دُہرایا جا سکے، تاکہ مستقبل میں ہمیں کوئی خرابی معلوم ہو، تو ہم پھر ہم اُس چیز کو پچھلی صورت میں واپس لے جا سکیں۔‘

’ماہر کاغذیات ‘زبیر احمد مدنی ماحولیاتی آلودگی کو کاغذ خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صنعتوں کے دھویں میں شامل مضر گیسیں کراچی کی سیلی ہوا میں جذب ہو کر کاغذ کو کتھئی کر دیتی ہیں، پھر اس کے ریشے توڑنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ پھر اسے چھونے سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہم ایسے کاغذ کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے باقاعدہ اس کے مضر اجزا نکالتے ہیں۔ 20 سال قبل تک ایسے کاغذ کی حفاظت کے لیے ایک فرنچ سلک لگاتے تھے، مگر خرابیاں سامنے آنے کے بعد اسے ترک کر دیا، اب کاغذ کی ’سائزنگ‘ کی جاتی ہے۔

کیڑا لگے ہوئے کاغذ کے سوراخوں کو ہاتھ کے بنے ہوئے کاغذ سے پُر کیا جاتا ہے، یہ کام اُس کاغذ کی موٹائی، رنگ اور اس کے ریشے کے حساب سے کیا جاتا ہے، تاکہ یہ پائیدار اور کاغذ کا ہی حصہ معلوم ہو۔ محفوظ کرنے کے بعد بھی اس کی نگرانی ہوتی ہے کہ کوئی خرابی نہ ہو۔ اس کے لیے اسے بند شیشوں میں آلودگی سے محفوظ ماحول دیا جاتا ہے، درجہ حرارت، نمی اور روشنی کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ کاغذ کے لیے روشنی 150 ’لکس‘ (تقریباً ایک ٹیوب لائٹ سے نصف) ہونا چاہیے، جب کہ درجہ حرارت 15 ڈگری سے 25 ڈگری تک رکھا جاسکتا ہے۔‘

کاغذ جیسے نازک چیز کے تحفظ کے عمل میں انہیں اس کی روشنائی کا بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس لکھائی کے سبب ہی تو اُس کاغذ کی اہمیت ہے۔ زبیر مدنی کے اس انکشاف نے ہمیں حیران کیا کہ دستی کاغذ کی عمر مشینی کاغذ سے زیادہ ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ مشینی کاغذ کے سارے ریشے ایک سمت میں ہوتے ہیں، جب کہ ہاتھ سے بنائے جانے والے کاغذ کے ریشے مختلف سمتوں میں باہم مربوط ہوتے ہیں اور مشین آڑے ترچھے ریشوں کا کاغذ نہیں بنا سکتی۔ ’ری سائیکل‘ کاغذ مزید کم زور ہوتا ہے، کیوں کہ مشینی کُٹائی میں اس کے ریشے کٹ جاتے ہیں، تاہم ہر نئے کاغذ میں ’ری سائیکل‘ کاغذ کی بھی کچھ مقدار شامل کی جاتی ہے، تاکہ درخت محفوظ رہیں۔‘

’ضعیف کتب کی ’جان بچانے‘ کے عمل میں ’جانیں‘ ضایع بھی ہوتی ہوں گی؟‘ ہمارے ذہن میں ابھرنے والے اس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں، تاہم اپنے ہاتھوں کسی ایسے ’ضیاع‘ کی نفی کرتے ہیں۔ 1020 ہجری کے تین جلدوں میں ’خط نستعلیق‘ میں مکمل قرآن پاک کے واحد نسخے کو محفوظ بنانے کو وہ قابل ذکر کاموں میں شمار کرتے ہیں۔

زبیر مدنی کو دیگر نادر چیزوں بالخصوص نایاب مصوری میں بھی دل چسپی ہے، کہتے ہیں کہ اس کی جانچ کے لیے ہمیں کیمیکل کا کام اور مختلف چیزوں پر اس کے اثر کا پتا ہونا چاہیے، کیوں کہ پینٹنگ زیادہ تر کیمیائی عمل ہوتا ہے، ہمیں اپنا یہ کام دور رَس اثرات ذہن میں رکھ کر کرنا پڑتا ہے۔

عجائب گھر کی اشیا کی حفاظت کے لیے انہیں نامیاتی اور غیر نامیاتی زمروں میں بانٹا جاتا ہے۔ نامیاتی وہ ہیں، جنہیں جلایا جائے تو وہ کوئلہ ہو جاتی ہیں، یعنی کسی بھی صورت میں جان دار سے حاصل ہونے والی اشیا۔ ان میں ہڈی، کاغذ اور لکڑی وغیرہ شامل ہیں۔ غیر نامیاتی چیزوں میں پتھر اور دھاتیں وغیرہ آتی ہیں۔ پھر اس کی مزید درجہ بندی ہوتی ہے۔ ہر چیز کے لیے الگ تیکنیک ہوتی ہے۔ بہت سی چیزیں ’مرکب‘ ہوتی ہیں، جیسے مجلد کتاب میں بہ یک وقت کاغذ، چمڑا، دھات اور کپڑا موجود ہوتا ہے۔ اسے محفوظ کرتے ہوئے بہت خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کی ہیئت تبدیل نہ ہو۔

’ماہر کاغذیات‘ زبیر احمد مدنی کا دعویٰ ہے کہ پورے پاکستان میں ’تحفظ قرطاس‘ کی واحد اسامی پر وہ متعین ہیں اور کوئی اور یہ کام کرنے والا موجود نہیں۔ ’آرکائیو‘ کا کام تو ہو رہا ہے، لیکن تحفظ وغیرہ کا کام کہیں نہیں! بحریہ کے میوزیم، ’ہمدرد ‘ فاؤنڈیشن اور جامعہ کراچی وغیرہ نے کئی مرتبہ مجھے اس کام کے لیے بلایا۔ میں یہاں کہہ کہہ کر تھک گیا کہ میں ریٹائر ہونے والا ہوں، میری مہارت وتجربے سے کسی کو تربیت دلوا لیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک زمانے میں جامعہ کراچی میں شعبۂ تاریخ کی ڈاکٹر طاہرہ آفتاب نے ایک سمسٹر ’کنزرویشن‘ کے حوالے سے منظور کرالیا، لیکن ہمارے محکمے نے اجازت نہیں دی۔

زبیر مدنی نے بتایا کہ یہاں 2000ء میں بلوچستان سے دریافت ہونے والی جعلی ’’ممی‘‘ بھی محفوظ ہے، جب ہم اِسے دیکھنے گئے تو ہمارے سارے جسم میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔ وہ گویا ہوئے کہ میں نے اس کے جعلی ہونے کی رپورٹ دی تو ہنگامہ ہوگیا۔ ’ممی‘ کی کیمیکل کمپوزیشن ویسی نہ تھی، حنوط کیے جانے کا کام مصر کے علاوہ جنوبی امریکا میں ہوا، لیکن یہ طریقہ ان سے نہیں ملتا تھا۔ ’ممی‘ کی تختی پر لکھا ہوا متن زرتشت مذہب اور عراق سے متعلق تھا، جب کہ تاریخی طور پر اس دور میں مصر کا عراق سے کوئی تعلق ثابت نہیں۔

’ممی‘ پر پٹیاں لپیٹ کر موم اور شیرہ لگایا گیا، اس کی صاف ستھری چٹائی بھی ناقابل فہم تھی۔ اس کا پتھر کا خول بھی مختلف اجزا سے ملا کر تیار کردہ تھا۔ میں نے جب اپنی رپورٹ میں یہ سب لکھا تو شدید ردعمل آیا۔ آخر آغا خان اسپتال سے اس کے ’ایم آر آئی‘ میں پتا چلا کہ یہ 19 سالہ لڑکی ہے، جس کی موت 12، 13 برس پہلے سر پر کسی ضرب سے ہوئی۔ بعد میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جعل سازوں نے اسے بیچنے کے لیے اس کی ویڈیو نیویارک کے ’میٹروپولیٹن میوزیم‘ کو بھی بھیجی تھی، لیکن انہوں نے مسترد کر دیا۔ جعل سازی ثابت ہونے کے بعد یہ ’ممی‘ سپرد خاک کر دی گئی اور اب اس کی پٹیاں اور کنگورے والا تاج اور  ماسک وغیرہ یہاں محفوظ  ہیں۔

زیبر مدنی اِن دنوں رضاکارانہ بنیاد پر کراچی آرٹس کونسل کی ’ماسٹرز کلیکشن‘ پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے والد نیر مدنی کی کلیات لانے کے لیے کوشاں ہیں، جن کے قطعات ’انجام‘ اور ’حریت‘ اخبار میں شایع ہوتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خود نوشت کے علاوہ اپنے پیشہ وارانہ تجربات پر دو کتابیں مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ کئی جگہ کام کی پیش کش ہے، جس کے سبب لگتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ مصروف ہونا پڑے گا۔

70 سال سے پرانی ہر چیز ’اینٹیک‘ کہلاتی ہے!

زبیر احمد مدنی کتب اور مخطوطات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ گزشتہ 15 برس سے ’پینٹنگز‘ کے تحفظ اور جانچ وغیرہ کے شعبے میں بھی کافی متحرک ہیں۔ پہلے اِن کی لیبارٹری میں صرف کاغذ کے حوالے سے کام ہوتا تھا، تاہم وہ بعد میں دیگر چیزوں طرف متوجہ ہوئے۔

وہ مصوری میں جعل سازی کی جانچ کا  طریقہ بتاتے ہیں کہ کسی فن کار کے کام کے انداز، پھر اس پینٹنگ کی ’ملکیت کی تاریخ‘ دیکھتے ہیں، یعنی یہ کب، کہاں اور کن کن لوگوں کے پاس رہی وہ لوگ خود کتنے معتبر تھے یا کسی نمائش وغیرہ میں لگی، اس کے بعد ’سائنسی تجزیے‘ میں اس کی تہیں اور رنگوں کا ملاپ دیکھتے ہیں، اور پتا چل جاتا ہے کہ مصوری ہے یا کسی ’پرنٹ‘ کو مصوری کہا گیا۔

ساتھ ہی اس پینٹنگ کے اجزا اور لوازمات کا منسوب کردہ زمانے اور علاقے میں میسر ہونا بھی دیکھا جاتا ہے۔ زبیر مدنی کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمیں نوادرات عطیہ کرتے ہیں اور کچھ قیمتاً دیتے ہیں، چیزوں کو خریدنے کا فیصلہ ہماری کمیٹی وسائل اور جگہ کے مطابق کرتی ہے۔ اس لیے نایاب چیزوں کے تحفظ کے لیے میوزیم کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ سالانہ تقریباً  40، 50 چیزیں فروخت کے لیے آتی ہیں، ابتداً اینٹیک کا معیار 10 مئی 1857ء (یعنی جنگ آزادی) سے پہلے کی چیزوں کا تھا، جب کہ اب 70 سال پرانی ہر چیز اینٹیک شمار کی جاتی ہے۔

جب جمیل نقش کے فن پارے کی تصدیق کی

چیزوں کے سائنسی تجزیے کے حوالے سے زبیر مدنی نے بتایا کہ اس میں ’الٹرا وائلٹ‘ اور ’انفراریڈ ‘ریڈیشن بھی استعمال کی جاتی ہے، ’انفراریڈ‘ کسی بھی چیز کے اندر سے گزر کر اس کی تہیں دکھاتی ہے، جب کہ ’الٹراوائلٹ‘ سطح پر سے کوئی چیز لگا کر ہٹائی ہو تو اُسے واضح کرتی ہے۔

ایک مرتبہ الٹراوائلٹ شعاعوں کی مدد سے جمیل نقش کی مصوری کی تصدیق ہوئی، اور اُن کے اوجھل ہونے والے دستخط مع تاریخ دکھائی دے گئے۔ ہم نے پوچھا کہ اگر قائد اعظم کے زمانے کی کسی شیروانی کو اُن سے منسوب کیا جائے، تو سائنسی طور پر تو وہ پرانی ثابت ہو جائے گی، لیکن یہ قائد اعظم کی ہے یا نہیں، یہ کیسے پتا چلائیں گے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’قائد کی ناپ، ان کے مصدقہ ملبوسات کی سلائی، تراش خراش اور پھر اس شیروانی کی ملکیت کی تاریخ دیکھی جائے گی، نیز یہ کہ کھوجا جائے گا انہوں نے یہ کب اور کہاں پہنی، اگر کسی نے تحفے میں دی، تو اس کا اور کیا ثبوت ہے۔‘

قائداعظم کی بگھی ’قومی عجائب گھر‘ میں ضایع ہوگئی۔۔۔!
پاکستان کی پہلی کابینہ کی کرسیاں کباڑ کی طرح پڑی ہوئی ہیں۔۔۔!

زبیر احمد مدنی ’قومی عجائب گھر‘ سے قیمتی چیزوں کی اسلام آباد منتقل کے سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں، تاہم یہ کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان کا پاسپورٹ اور شہادت سے پہلے وہ جس نوٹ پیڈ پر پینسل سے لکھ رہے تھے، وہ یہاں محفوظ ہے۔ زبیر مدنی کے بقول سات سال سے ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ کے لیے کوئی بجٹ نہیں ملا، انہوں نے ہزاروں روپے اپنی جیب سے لگائے۔ نیشنل میوزیم کی ’پیپر کنزرویشن لیبارٹری‘ دو برس حکومت سندھ کے پاس رہی، اب دوبارہ وفاق کے زیر انتظام ہے، اب یہ بالکل غیر فعال ہے۔ ہم نے خود اس لیبارٹری میں بہت سے قدیم نوادرات کو کاٹھ کباڑ کے ساتھ خلط ملط دیکھا۔

’’یہ استاد بڑے غلام علی کا تان پورہ ہے!‘‘ انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا تو ہم نے دیکھا یہ گرد وغبار میں اٹا ہوا تھا۔

’’اور وہ سامنے جو کرسیاں ہیں، وہ پاکستان کی پہلی کابینہ کی میٹنگ کی ہیں۔۔۔!‘‘ زبیر مدنی کے اس انکشاف پر ہم ہکا بکا ہو کر متوجہ ہوئے۔۔۔ اور بہت سے فالتو سامان کے درمیان کچھ کرسیوں کو پھینکا ہوا پایا۔۔۔ وہ ان کرسیوں کی تعداد درجن بھر بتاتے ہیں، لیکن ہم گھِرے ہوئے کباڑ میں بہ مشکل سات، آٹھ ہی شمار کر پائے۔۔۔ اس المیے پر ہی بس نہیں، زبیر مدنی نے بتایا کہ تقریباً 20 برس پہلے تک یہاں قائداعظم کی بگھی بھی ہوتی تھی، جو حکام کی مجرمانہ غفلت کے سبب آسمان تلے پڑے پڑے برباد ہوگئی۔۔۔! اس تاریخی بگھی کی باقیات بھی اب موجود نہیں، ایک دن دیکھا تھا کہ اس کا  پہیا اِدھر اُدھر لڑھکتا پھر رہا تھا، پھر وہ بھی نہ رہا۔۔ ۔!

چاند پر لے جایا جانے والا پاکستانی پرچم بھی محفوظ بنایا۔۔۔

زبیر احمد مدنی کہتے ہیں کہ ’قومی عجائب گھر‘ پہلے ’فریئر ہال‘ میں تھا، موجودہ عمارت 1970ء میں بنی۔ یہاں کلام پاک کے دو ہزار سے زیادہ نسخے محفوظ ہیں، 80 کے قریب مشتہر کیے گئے ہیں۔ یہاں قرآن پاک کا قدیم ترین نسخہ تیسری صدی ہجری کا ہے، جو کہ مکمل نہیں، لیکن 1020ء ہجری کا خط نستعلیق کلام پاک تین جلدوں میں مکمل ہے۔ خلائی مشن ’اپالو 13‘ کے ذریعے خلا نورد چاند پر مختلف ممالک کے ساتھ جو پاکستانی جھنڈ ا لے کر گئے تھے، وہ پرچم، چاند کا پتھر اور ایک تصویر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران پاکستانی وفد کو پیش کی گئی تھی، وہ بھی یہاں محفوظ ہے۔ وہ جھنڈا خراب ہوگیا تھا، اسے ہم نے ٹھیک کیا۔ یہاں طلبہ کے لیے داخلہ مفت، جب کہ بچوں کا ٹکٹ  10اور بڑوں کا 20 روپے ہے۔ پہلے عام شائقین کے ساتھ غیر ملکی بھی بہت بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی تھی، اور کبھی باہر قطاریں تک لگ جاتی تھیں۔ اب زیادہ تر اسکولوں کے ہی دورے ہوتے ہیں۔

والد نیر مدنی کے انتقال کے دن ہی تقرری کا خط موصول ہوا!

زبیر احمد مدنی اپنی ذاتی معلومات یوں دیتے ہیں ’ فروری 1960ء میں کراچی میں آنکھ کھولی، 1976ء میں گورنمنٹ بوائز سیکینڈری اسکول ناظم آباد نمبر ایک سے میٹرک، اردو سائنس کالج سے 1982ء میں ’بی ایس سی‘ اور پھر جامعہ کراچی سے فارسی لٹریچر اور فلسفے میں ماسٹرز کیے۔ والد اردو کے ممتاز شاعر اور تحریک آزادی کے کارکن نیر مدنی تھے، جن کا تعلق الہ آباد سے تھا، وہ امامت بھی کرتے تھے۔

زبیر احمد مدنی چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، ایک بھائی کا انتقال ہو چکا۔ کہتے ہیں کہ ’بی ایس سی‘ کے بعد گرو مندر پر واقع ’ایمپلائمنٹ ایکسچینج‘ کا کارڈ بنوایا، اتفاقاً قومی عجائب گھر میں ’رسٹورر‘ کی اسامی آئی ہوئی تھی۔ درخواست دے دی، 12 اگست 1983ء کو تقرری کا خط جب گھر پہنچا، اسی دن والد نیر مدنی کا انتقال ہوا، کچھ دن بعد وہ خط دیکھا اور پھر ان کی خدمات کا آغاز ہوا۔ زبیر مدنی کے بقول ان کے ساتھ تین خواتین بھی مقرر کی گئیں، جو کچھ برس بعد چلی گئیں، اس کے بعد سے وہ ہی سارے معاملات دیکھ رہے ہیں۔

دوران ملازمت شعبے کی پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے جاپان، کینیڈا اور امریکا بھی گئے۔ زبیر مدنی کی شادی 1997ء میں ہوئی، اولاد کوئی نہیں، 2002ء میں بالٹی مور میں ’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فور کنزرویشن آف ہسٹوریک اینڈ آرٹسٹک ورکس‘ کی کانفرنس میں دیسی، مغربی اور جاپانی طرز تحفظ پر اپنا تحقیقی مقالہ بھی پیش کیا۔

ایک کتاب محفوظ کرانے کی لاگت دو لاکھ روپے تک۔۔۔

زبیر احمد مدنی بتاتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی کتاب خراب نہ ہو تو بہترین صورت تو یہ ہے کہ سفید کاٹن کے دستانے پہن کر کتاب چھوئیں، یا ہاتھ بالکل صاف ہوں اور ورق اُلٹتے ہوئے لعاب نہ لگائیں۔ کتابوں کے کمرے میں ہوا کا گزر ہو۔ کراچی میں جون، جولائی میں نمی 90 فی صد سے زیادہ اور سردیوں میں نو فی صد سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ جس سے کاغذ متاثر ہوتا ہے۔ زبیر مدنی اب تک محفوظ کی گئی کتابوں کا شمار بتانے سے قاصر ہیں، کہتے ہے کہ ’تعداد ہزاروں میں ہوگی، کیوں کہ یہ ایک طویل عمل ہے۔ عام طور پر 150 صفحے کی کتاب پر ڈیڑھ سال تک لگ سکتا ہے۔

اگر کوئی کتاب محفوظ کرانا چاہے تو اس کی لاگت دو ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس میں استعمال ہونے والا دستی کاغذ اور خالص کیمیائی اجزا بہت منہگے ہیں۔ ایک برش کی قیمت ہی 11 لاکھ روپے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔