’’بے زبان شیطان‘‘

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 27 ستمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم جناب عمران خان آج اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اور آج ہی 27 ستمبر کو وزیر اعظم صاحب کے حکم پر ہم سب ’’یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔ سیاستدان اور منتخب حکمران کی حیثیت میں عمران خان آج پہلی بار یو این کے عالمی فورم سے مخاطب ہوں گے۔

پچھلے سال بھی، ستمبر کے اِنہی ایام میں، انھیں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا تھا لیکن وہ نیویارک تشریف نہیں لے گئے تھے کہ ( بقول اُن کے) کوئی خاص واقعہ ایسا نہیں تھا جس پر کلام کرنے کے لیے وہ بھاری اخراجات کرتے ہُوئے وہاں پہنچتے۔ اِس بار مگر حالات خاصے کشیدہ اور دگرگوں ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے پانچ اگست کو جو ظلم ڈھایا ہے، اس وحشت اور یکطرفہ اقدام کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے ۔ گزشتہ سات ہفتوں سے قابض و غاصب بھارتی افواج نے 80لاکھ بے بس کشمیریوں کا نئے انداز سے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ کسی بھی محاصرے میں محصور انسانوں پر جو گزرتی ہے، اُن سب متصورہ ظلم و ستم سے کشمیری گزر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر جو طاقتور ہیں، وہ سب مجموعی حیثیت میں اس غیر انسانی رویے پر خاموش ہیں۔ اس بے حس عالمی خاموشی پر وزیر اعظم عمران خان بھی مایوس ہیں۔ انھوں نے کہا ہے : ’’دُنیا کو احساس ہو گیا ہے کہ کشمیر کی حالت ابتر ہے لیکن دُنیا ایک ارب کی مارکیٹ (بھارت) کی طرف دیکھتی ہے۔ عالمی برادری کے اس رویے پر مایوسی ہُوئی ہے۔‘‘

مایوس تو نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں مایوس نہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے جو بن پڑا ہے، کر رہے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ خالقِ کائنات اِنہی مساعی جمیلہ سے کشمیریوں کے لیے کوئی خیر برآمد فرمائے گا۔ اپنے گمبھیر مسائل کے باوجود عالمی سطح پر اس وقت بھی کشمیر اور اہلِ کشمیر کے لیے سب سے توانا اور متحرک آواز پاکستان ہی کی ہے (24 ستمبر کے زلزلے نے پاکستان پر ایک اور افتاد اور آزمائش ڈال دی ہے) یہ آواز ہمہ دَم اُٹھتی بھی رہنی چاہیے کہ پاکستان نے روزِ اوّل سے، اپنے قائد کے حکم پر، کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھا رکھی ہیں۔

ان قسموں کو ہم کیسے توڑ سکتے ہیں؟ ٹھیک ہے عالمِ اسلام اور عالمِ مغرب کے بیشتر ممالک کی طرف سے مظلوم و محصور کشمیریوں کے حق میں اور تازہ بھارتی اقدام کے خلاف پاکستان کو جو حمایت ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل سکی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ پاکستان بھی مایوسی میں ڈُوب کر بھارت کے مقابل کھڑا ہونے سے دستکش ہو جائے۔ پاکستان تو بدستور، الحمد للہ، کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی ریاست ’’ٹیکساس‘‘ کے شہر، ہیوسٹن، میں بھارتی پردھان منتری اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پچاس ہزار سے زائد بھارتی مجمعے کے سامنے جس ’’یکجہتی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیں اس سے بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

امریکا میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں میں جتنی ہمت اور استعداد تھی، اُسے بروئے کار لا کر ہیوسٹن میں موجود مودی کے خلاف مزاحمتی اور احتجاجی مظاہرے کر کے امریکی حکومت اور میڈیا کے خوابیدہ ضمیر کو جگانے کی اپنی سی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ یہ مزاحمتی اور احتجاجی آوازیں طاقتوروں کے مقابلے میں نحیف اور کمزور تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی ہیں۔ ان کوششوں سے کشمیریوں کی ہمت افزائی بھی ہُوئی ہے اور انھیں حوصلہ بھی ملا ہے۔ آج ایک بار پھر نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے کشمیری اور پاکستانی نژاد امریکی، سیکڑوں کی تعداد میں، عمران خان و کشمیر کے حق میں اور بھارت و مودی کے خلاف اکٹھے ہو کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ آوازیں ہوا میں تحلیل ہو کر نہیں رہ جائیں گی۔ آج جب عمران خان جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہوں گے، باہر پاکستانیوں کی آوازیں اُن کے لیے توانائی کا باعث بنیں گی۔ امریکا میں آباد سکھ کمیونٹی بھی یک جہت اور یکمشت ہو کر کشمیریوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ ہیوسٹن میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں سکھوں نے مظلوم و مقہور کشمیریوں کے حق میں جو شاندار مظاہرے کیے ہیں، ہم اور کشمیری اس کے لیے شکر گزار ہیں۔ 23 ستمبر کو ہیوسٹن کے اسٹیڈیم این آر جی ( جہاں مودی بھارتی امریکیوں سے مخاطب تھے) سے باہر کشمیر اور ’’خالصتان‘‘ کے حق میں جری سکھوں کی بلند ہوتی آوازوں سے یقیناً بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سینے پر سانپ لوٹتے رہے ہوں گے۔ یہ آوازیں دراصل اللہ کی طرف سے غیبی امداد سمجھنی چاہئیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیں اور ہمارے وزیر اعظم کو کشمیر کے معاملات سلجھانے کے لیے ثالثی کا جو لالی پوپ دیا تھا، اُس کا فی الحال کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہُوا ہے۔ یہ لالی پوپ ایک بار پھر ہمیں دیا گیا ہے۔ پتہ نہیں امریکی صدر صاحب کے دل میں ہے کیا؟ ہم اگر بدگمانی بھی کرتے ہیں تو امریکی حاکم کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم کو عالمی تالاب کے اِنہی مگر مچھوں سے صبر کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں۔ زور زبردستی اور حسبِ منشا نہیں۔ اگر صدرِ امریکا کو کشمیریوں کی فوری دستگیری کرنا ہوتی تو وہ جنرل اسمبلی کے تازہ خطاب میں بھی کچھ کر اور کہہ سکتے تھے مگر کچھ بھی نہیں کیا۔

امریکی صدر نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں طالبان، ایران اور چین کے حوالے سے اپنے مفاد کی باتیں تو زور دے کر کہی ہیں لیکن کشمیر اور محصور کشمیریوں کے حق میں ایک بھی کلمہ کہنے سے اعراض ہی کیا۔ ٹرمپ صاحب نے ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران یہ تو کہا کہ ہیوسٹن کے جلسے کے دوران نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف زیادتی کی ، لیکن جب مودی جی پاکستان کے خلاف اشارتاً ( بے بنیاد اور غیر حقیقی تہمتیں عائد کر رہے تھے) امریکی صدر وہاں موجود ہونے کے باوصف خاموش رہے۔

اس خاموشی کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ ہمیں پھر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ غنیمت ہے کہ بہادر اور غیور ترک صدر، جناب طیب اردوان، نے غیر مبہم الفاظ میں بھارت سمیت ہر اس ملک کی مذمت کی ہے جو مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کے بارے میں خاموش ہے۔ جناب طیب اردوان کے یہ الفاظ ہم اور کشمیری ہمیشہ یاد رکھیں گے: ’’یو این او کی قرار دادوں کے باوجود 80 لاکھ کشمیری (بھارت کے ہاتھوں ) محصور ہیں۔ اس موقع پر (ہر) خاموش رہنے والا (ملک )بے زبان شیطان ہے۔‘‘ اس کشمیر حمایت پر ہمارے وزیر اعظم نے جناب اردوان کا بجا طور پر شکریہ ادا کیا ہے۔

ایسی آوازیں پاکستان، کشمیر اور عمران خان کے لیے تقویت اور ہمت کی اساس بننی چاہئیں۔ اِنہی سے طاقت کشید کرتے ہُوئے آج عمران خان جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ وہ خود کو ’’سفیرِ کشمیر‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کے خطاب میں مسئلہ کشمیر، کشمیریوں کی تازہ مظلومیت، بھارتی استبداد، پانچ اگست کے بعد 20ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کی گرفتاریاں، انڈین سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوںسارے مقبوضہ کشمیر کا مکمل محاصرہ، خوراک و ادویات کی شدید کمی ایسے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ خان صاحب نے امریکی ’’کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ ایسے موثر تھنک ٹینک میں بھی اپنے 58 منٹی مکالمے  اور یو این میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ خوب لڑا ہے۔

انھیں مگر اس تھنک ٹینک اور پریس بریفنگ میں بھارتی ہٹلر کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا لیکن ’’ہٹلر‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے دانستہ گریز کیا گیا، حالانکہ وطنِ عزیز میں تو وہ مودی کو ’’ہٹلر‘‘ کے ’’لقب‘‘ ہی سے یاد کر رہے ہیں۔ امریکا میں مودی کے لیے ’’ہٹلر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تواس کا زیادہ امپیکٹ ہوتا۔ شائد عالمی سفارتی آداب کے تحت اسے بروئے کار نہیں لایا گیا۔ بلند اُمیدوں اور دعاؤں کے ساتھ ہم سب آج اپنے وزیر اعظم کے جنرل اسمبلی میں پُر آزمائش خطاب کے منتظر ہیں۔ اور عالمی حساسیت کے پیشِ نظر یہ بھی اُمید رکھتے ہیں کہ یہ خطاب فی البدیہہ نہیں ہو گا۔ او آئی سی نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے، انشاء اللہ یہ بھی عمران خان کے لیے تقویت کا باعث بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔