سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  پير 7 اکتوبر 2019

صد لفظی کتھا
نانی
رضوان طاہر مبین

’’صبر سے کام لو۔۔۔!‘‘
نانی کے انتقال پر میں نے ثمر کو حوصلہ دیا۔
’’میرا ان اَشکوں پر اختیار نہیں۔۔۔
یہ تو نانی اور آنکھوں کا تعلق ہے۔۔۔!‘‘
ثمر کچھ دیر ٹھیرا، پھر بولا:
’’برسوں پہلے ایک عورت پائی، پائی جوڑتی ہے۔۔۔
مہینوں بعدگلّا بھرنے لگتا ہے۔۔۔
یعنی کوئی دیرینہ ضرورت پوری ہونے کو ہوتی ہے کہ
نواسا جنم لیتا ہے۔۔۔
لیکن وہ آنکھیں کھولتا ہے تو پیپ نکلتی ہے۔۔۔!
وہ سجدے میں گر جاتی ہے۔۔۔
مشقت سے جمع کی ہوئی سب پونجی وار دیتی ہے۔۔۔
یہ آنکھیں مانگ لیتی ہے۔۔۔!‘‘
یہ کہہ کر ثمر اپنے آنسو پونچھنے لگا۔۔۔۔

۔۔۔

تمہاری خوش بو میری آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
کُھلی ہوئی کھڑکیوں کی جالیوں سے اندر آنے والی بارش کی بوندیں، جو میرے چہرے کو بھگو رہی ہیں، ان میں بہت انوکھی خوش بوئیں ہیں۔
چیڑھ، پودینہ، سونف اور ٹماٹر کے پتوں کی مہک۔۔۔

بجلی کا کوندا لپکتا ہے تو ٹین کی چھت سے روپہلی بارش کی تاریں زمین سے بندھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ میں کمبل اوڑھ کر کُھلی کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں۔ میرے ہاتھوں میں چائے کا بھاپ اور خوش بو اڑاتا ہوا پیالا ہے اور انگلیوں کی پوروں پر سفر کے نت نئے ذائقے ننھے شگوفوں کی مانند گول مول ہو کر سو رہے ہیں۔

میرے حافظے میں خوش بو کے الگ الگ دفتر محفوظ ہیں اور ہر خوش بو کی راحت یا اذیت کے سب لمحات تازہ اور زندہ ہیں بشمول اپنی چبھن یا عافیت کے۔

مارگلہ کے دامن میں پھیلی ہوئی ایک سرسبز اندھی گلی میں قدم قدم پر جکڑنے والی کچنار کی ادھ کھلی کلیوں کی خوش بو، جو کچھ دیر بعد تمہارے سانس، لب اور بالوں کی جڑوں سے پھوٹنے لگی تھی اور میں نے چاہا تھا اس سے اپنا عطر دان بھر لوں اور میں نے خالی بوتل کو تمہارے لبوں پر اوندھا بھی دیا، مگر بخور عنبریں محض خواب کی خوش بو تھے۔۔۔!
بوجھل روح میں کینر کی زہریلی تلخ خوش بو کچنار کا دم گھوٹتی رہتی ہے اور میں چپ چاپ خالی عطر دان میں سانس بھرتی رہتی ہوں۔ احساس کی دبیز پتیوں پر غم کا سلگتا انگارہ رکھا جاتا ہے، تو ایک بوند خوش بو کا جنم ہوتا ہے۔ میرا عطر دان کب بھرے گا؟
میرے قلب ناصبور پر مزید سیاہ داغ بنانے کو اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔
چائے ختم ہو رہی ہے اور کھڑکی کی نم جالی پر ایک جگنو ٹمٹما رہا ہے۔ تمہاری خوش بو میری آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔۔۔

۔۔۔

نہر میں بہتا ہوا ایک سیب۔۔۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے دوران سفر ایک نہر میں سیب بہتا ہوا دیکھا اور یہ سمجھ کر کہ اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے، سیب اٹھایا اور کھالیا، بعد میں خیال آیا کہ نہ جانے کس کا سیب تھا اور میرے لیے کھانا جائز بھی تھا یا نہیں۔ اگر روز قیامت باز پرس ہوئی یا سیب کے مالک نے دعویٰ کر دیا تو میں کیا جواب دوںگا۔

یہ نہر ایک باغ سے گزرتی تھی۔ چناں چہ آپؒ اس باغ کے مالک کے گھر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹا تو ایک خادمہ نے بتایاکہ اس باغ کی مالکہ ایک خاتون ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے مالکہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ خادمہ واپس چلی گئی اور باغ کی مالکہ خاتون دروازے پر آئی۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے اسے سارا واقعہ بتایا اور اپنی تشویش سے آگاہ کیا تو باغ کی مالکہ نے کہا: ’’میں اس باغ کی واحد مالکہ نہیں ہوں۔

اس باغ کا نصف حصہ میرا ہے اور باقی حصہ والی بلخ کی ملکیت ہے، جو اس علاقے کا مالک اور بادشاہ ہے۔ آپ نے جو سیب کھایا ہے میں اس کے نصف حصہ کی مالک ہوں اور میں آپ کو اپنا حق معاف کر سکتی ہوں، لیکن میں بادشاہ کے حصے کی ذمے داری کیسے لے سکتی ہوں؟ چناں چہ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ وہاں سے روانہ ہوئے، بلخ پہنچے اور امیر بلخ سے سیب کا باقی انصاف حصہ بھی بخشواکر ہی دم لیا۔
(حکیم محمد سعید کے مضمون سے ایک سبق آموز واقعہ)

۔۔۔

مبارک باد دیے بغیر آگیا
ظہیر انجم تبسم، خوشاب
میں اپنے دوست کو نئی کوٹھی بنانے پر مبارک باد دینے گائوں گیا تو دیکھا۔ میرا دوست گلی میں کوٹھی کی پانی کا وال بند کر رہا ہے، جس سے گلی کے لوگ میٹھا پانی بھر لیتے تھے۔ کہنے لگا میں نے بڑی مشکل سے پانی کا یہ کنکشن لگوایا ہے۔ میں نے کہا پانی گناہوں کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ لوگوں کو پانی بھرنے دیا کرو، مگر اس نے برا منایا۔

میں نے پوچھا والدین خیریت سے تو ہیں، تو کہنے لگا والدین بیمار ہیں، ساتھ والے گائوں میں رہتے ہیں۔ میں ہر جمعے ان سے ملنے جاتا ہوں، رکشے میں 20 روپے جانے اور 20 روپے آنے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ اتنی منہگائی میں، میں روز روز تو پوچھنے سے رہا۔ پھر میں نے اس سے کہا یہ برابر والا کچا مکان ہے، یہاں ایک بیوہ چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے مکان کی چھت گرنے والی ہے اس کی چھت تعمیر کرادو، وہ کہنے لگا اگر ان بچوں کی موت چھت گرنے سے لکھی ہوئی ہے، تو کیا تم بچا لوگے؟

اب ایسے میں، میں اُسے مبارک باد کیا دیتا۔۔۔ یوں ہی لوٹ آیا۔

۔۔۔

’’پِکاسو کے کیا کہنے ہیں!‘‘
مرسلہ: سید اظہر علی، کراچی

اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کچھ کہیں گے، تو کسی کی زبان تھوڑا پکڑی جا سکتی ہے۔ لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مضامین میں ہم کورے ہیں۔ فنونِ لطیفہ سے ہمارے نابلد ہونے کی بات جو اتنی مشہور ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔ ڈراما ہو یا موسیقی یا مصوری، کسی میں ہم کسی اور سے ہیٹے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معیار بہت اونچے ہیں۔

لندن میں ہم نے سرلارنس الیور کا ایک کھیل دیکھا اور بہت خوش ہو کر اخباری نمائندوں سے ان کی ہونہاری کی تعریف اور ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی اور یہ واقعی سچ ہے کہ وہ برابر اسٹیج پر آتے رہے، تو ایک دن نام پیدا کریں گے۔ شیکسپیئر کو بھی ہم بہت پسند کرتے ہیں اور اردو کے نقادوں سے متفق ہیں کہ اپنے زمانے کا آغا حشر تھا۔ موسیقی میں لوگوں نے ہمیں اس روز روشن آرا کی گائیکی پر سرہلاتے پکڑا۔ ایک روشن آرا ہیں اور ایک اور ہیں جن کا بھلا سا نام ہے اور نورجہاں ہے۔

ان سب کے فن سے ہم محظوظ ہونے پر قادر ہیں بشرطے کہ ہمیں پہلے سے کوئی بتادے کہ یہ روشن آرا گارہی ہیں یا نور جہاں ہی ہیں۔ مصوری میں ہم اپنی ژرف نگاہی کے قائل ہیں اس روز کسی نے ہمیں اپنی تصویر دکھائی ہم نے پوچھا کس کی ہے۔ معلوم ہوا پکاسو کی ہے ہم نے کہا یہ بات ہے تو بہت اچھی ہے۔ پِکاسو کے کیا کہنے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ان کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ اور رنگ کتنے اعلیٰ کوالٹی کے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کئی مقامی مصوروں کی نمائشیں دیکھی ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ پکاسو کا کوئی جواب نہیں۔

(ابن انشاء کی کتاب ’’خمار گندم‘‘ سے انتخاب)

۔۔۔

شاعرہ بریانی کی دیگ سمیت فرار۔۔۔!
خالد معین
ایک ایسی گوشہ نشیں شاعرہ بھی ہیں، جو پہلے سال میں دو چار مرتبہ اور اب ایک دو مرتبہ اپنے لیے ’ڈونیشن مشاعرے‘ کراتی ہیں اور کُھل کر اس کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔ اس سچائی کے سبب کبھی کبھی اُن کے مشاعروں میں جانا کارِِ ثواب سا لگتا ہے۔ وہ بلاتی بھی بہت اصرار کے ساتھ ہیں اور ایسا ظاہر کرتی ہیں کہ جسے وہ فون کر رہی ہیں، اگر وہ اُن کے مشاعرے میں نہ پہنچا، تو گویا مشاعرہ ہی نہیں ہوگا۔ ایک ایک فرد کو کئی کئی بار فون کیا جاتا ہے۔

پرانے مراسم یاد دلائے جاتے ہیں اور پھر وہی جذباتی بلیک میلنگ کہ بس آنا ہی آنا ہے۔ ہم ایسے خوش گمان یہ محسوس کرتے ہوئے، اْن کے مشاعروں میں پہنچ جاتے ہیں کہ نہ گئے تو جانے کتنی شکایتیں کی جائیں گی۔ پھر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور آیندہ ایسے کسی مشاعرے میں نہ جانے کا عہد کرتے ہوئے گھر لوٹتے ہیں۔

مذکورہ مشاعرہ ’کشمیر روڈ‘ پر واقع سٹی کلب میں تھا، 60، 70 کے قریب لوگ جمع تھے، جن میں اکثریت شعرا اور شاعرات کی تھی۔ دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والا بے رنگ وبے رَس طویل مشاعرہ ایک آدھ جگہ اٹھنے کے بعد خدا خدا کر کے ختم ہوا۔ اب رات کے دس، ساڑھے دس بجے کا وقت تھا، یعنی اصل ذلت کا یہاں سے آغاز ہونا تھا۔ لوگوں کا بھوک سے برا حال تھا۔ ایسے میں دور سے دیکھا، تو ایک میز پر بریانی کی ’فراہمی‘ نظر آئی اور بھوکوں کا ہجوم بھی، سوچا بھیٹر کچھ چَھٹ جائے، تو مرغی کی ایک آدھ بوٹی ہم بھی کھا لیں، تاکہ کچھ آسرا ہو جائے اور پھر گھر جا کر کھانا کھا لیا جائے۔

ادھر ’سیلفی‘ اور گروپ فوٹوز کا دور چل نکلا۔ اس سے فرصت ہوئی، تو دیکھا پون لوگ خالی پلیٹ ہاتھ میں لیے بریانی کا انتظار کر رہے ہیں۔ سب کے چہروں سے بھوک اور ندامت آشکار ہے اور بریانی کی دیگ غائب ہو چکی ہے۔ خواتین میں خاصے مقبول ہمارے ساتھ بریانی کھانے کے خواہش مند ایک جوان شاعر یہ دیکھ کر خاصے جذباتی ہوگئے اور انہوں نے بتایا کہ شاعرہ صاحبہ، مشاعرے میں لگے ہوئے کمرشل بینرز اور بریانی کی دیگ سمیت چُپکے سے فرار ہو چکی ہیں۔ پھر مت پوچھیں! اس توہین پر ہنستے ہنستے آنکھوں میں جو آنسو آئے، اْنہوں نے کتنا شرمندہ کیا۔

۔۔۔

’کوئی راز تو چھپا ہے، میری مے کشی کے پیچھے!‘
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

معاشرے میں نشے کی لت کوئی نئی نہیں، کسی کو اقتدار تو کسی کو عشق کا نشہ لا حق ہے، کوئی دولت تو کوئی حسن و جوانی کے نشے میں مبتلا ہے، لیکن ہماری مراد وہ حقیقی کردار ہیں، جو ہر شہر اور گائوں میں دکھائی دیتے ہیں ؎

مجھے کہہ کے تم شرابی نہ کرو جہاں میں رسوا
کوئی راز تو چھپا ہے میری مے کشی کے پیچھے

کہیں ’محوِ پرواز‘ تو کہیں ’نیم پرواز‘ یہ لوگ اپنی نشہ آور اشیا سے اتنی گہری ’’عقیدت‘‘ رکھتے ہیں کہ کسی نے کہا جس شخص کا پائوں بھی افیون کو چھو گیا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ نشئی فوراً بولا ’’کیسے جاوے، افیون جیسی ’’متبرک‘‘ چیز پر جو پائوں رکھ دیا۔‘‘ ابراہیم ذوقؔ تو ایمان کو اس قدر کم زور سمجھتے ہی نہ تھے کہ ڈیڑھ چلّو ’’پانی‘‘ میں بہہ جائے۔ حتٰی کہ ایک صاحب جنت کی فضا راس نہ آنے کے باعث ساقی سے ’مے خانے‘ کا دروازہ بند نہ کرنے کی استدعا کرتے گئے۔ ایک اور شاعر چل کر پینے جاتے مگر پھر اٹھا کر لائے جاتے۔ غالبؔ تو ہاتھوں میں جنبش نہ ہونے کے باوجود ساغر و مینا کو سامنے رکھنے کے خواہاں تھے۔ ساغرؔ صدیقی عالمِ مدہوشی میں بھی خدا کو سجدہ کرنے کے قائل تھے۔

اب تو یہاں ’’معجزاتی‘‘ طور پر شراب شہد میں بدل جاتی ہے۔ گویا کباب بوتل میں اور شراب سیخ پہ ڈالنے کا معما حل ہوا چاہتا ہے۔ نشئی حضرات سب کچھ لٹا کر مانگے تانگے اور پھر چوری چکاری سے ’’باغِ بہشت‘‘ کی سیر کرتے ہیں۔ عام ’جہازوں‘ کی کیا مجال ہے کہ ان کے مقابل آئیں۔ کچھ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ ان کی قسمت میں لکھنے والے نے چوں کہ ’پینا‘ لکھ دیا ہے، تو ہم اس کے لکھے کو غلط کیسے کر دیں۔ یہاں ’’پینے‘‘ کی اصطلاح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ گویا اس ضمن میں مائع ، ٹھوس اور گیس ہر چیز کے لیے ’’پینے‘‘ کا فعل ہی مستعمل ہے۔

ہمارے ایک معروف قوال نہ صرف خود کو ’شرابی‘ کہا کرتے تھے، بلکہ نہ پینے والوں کو ’’ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں‘‘ کا طعنہ بھی مارا کرتے، وہ بضد تھے کہ نشہ شراب کا نہیں، بلکہ انسان کا خاصہ ہے ورنہ بوتل بھی تو ناچتی۔۔۔! یہ سب اپنی جگہ، مگر ایک ’صاحبِ پرواز‘ شخص نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ یہاں تو لوگ دوسروں کا خون پیے جا رہے ہیں، ہم جو کچھ بھی ’پیتے‘ ہیں، مگر لہو تو نہیں پیتے!

۔۔۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔