امریکا کی دوستی اور دشمنی کے معیار
روس کی بحیثیت سپر پاور عالمی سیاست سے علیحدگی کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا ہے۔
روس کی بحیثیت سپر پاور عالمی سیاست سے علیحدگی کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا ہے۔ امریکا کی پوری تاریخ بدقسمتی سے اپنی طاقت کے غلط استعمال سے بھری ہوئی ہے، کوریا، ویت نام سے لے کر افغانستان اور عراق میں امریکا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتا نظر آتا ہے۔
اس روایت کی وجہ امریکا دنیا بھر میں ایک جارح اور ظالم ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور دنیا کے عوام ہر جگہ اس سے نفرت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حاکمانہ سیاست کی وجہ سے امریکی حکمرانوں کی خارجہ پالیسی بھی جارحانہ اور خودغرضانہ بنی ہوئی ہے امریکی حکمرانوں کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ دنیا کے دوسرے ملک خاص طور پر پسماندہ ملک اس کی سامراجی سیاست میں پیادوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اگر کوئی ملک یہ کردار ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے طرح طرح سے تنگ کرنے کی گھٹیا سیاست کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے شمالی کوریا اور ایران امریکا کے ناپسندیدہ ترین ملک ہیں امریکی حکمران ملکوں کو بدی کی طاقتیں ہیں۔
شمالی کوریا اور ایران سے امریکا کی ناراضی کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ دونوں ملک ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کر رہے ہیں اگر کوئی ملک ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دنیا کے لیے ایک خطرہ بننے کی کوشش کرتا ہے جس کی مخالفت ہر ذی شعور کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن جب کوئی ملک ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے کسی ملک کی مخالفت محض اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے کرتا ہے تو یہ مخالفت نہ عالمی امن کی خواہش کی عکاس ہوتی ہے نہ یہ مخالفت کسی سپر پاور کو زیب دیتی ہے۔
ایران پر الزام ہے کہ وہ ایک ایٹمی ملک بننے کی کوشش کر رہا ہے اگر ایٹمی ایران کی مخالفت دنیا کو ایٹمی خطرے سے بچانے کے لیے کی جاتی ہے تو دنیا اس مخالفت کی حمایت اپنی ذمے داری سمجھتی ہے لیکن امریکا ممکنہ ایٹمی ایران کی مخالفت دنیا کے امن دنیا کے اجتماعی مفادات کے پس منظر میں نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کی مخالفت کی واحد وجہ ایران سے اسرائیل کو لاحق ممکنہ خطرات ہیں۔ امریکا نے پورے مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کو اپنا پولیس مین بنا رکھا ہے اور ایران اسرائیل کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ایران کے اس گستاخانہ رویے کے جواب میں امریکا اب تک اقتصادی پابندیوں سمیت ایران کے خلاف مختلف اقدامات کرتا آرہا ہے۔
اگر بہ فرض محال ایران ایٹمی ملک بن جاتا ہے تو اس سے نہ دنیا کو کوئی خطرہ ہوگا نہ امریکا کو اگر کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو صرف اور صرف اسرائیل کو ہوسکتا ہے۔ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں ایک وحشی درندے کی طرح دندتا پھر رہا ہے وہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے فلسطینیوں پر قاتلانہ حملے کرتا ہے اور اب تک وہ لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اسرائیل کی اس درندگی کے خلاف اقوام متحدہ کوئی مذمتی قرارداد بھی منظور کرنا چاہتی ہے تو امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے۔ دوسری طرف ایران کو تباہ کرنے کی امریکی کوششوں کی واحد وجہ ایران سے اسرائیل کو لاحق ممکنہ خطرات ہیں۔ کیا ایسی دوغلی اور شرمناک جارحانہ پالیسی دنیا کی واحد سپر پاور کو زیب دیتی ہے؟
ہم نے ابتدا میں اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ اصل مسئلہ طاقتور ہونے کا نہیں بلکہ طاقت کے صحیح یا غلط استعمال کا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں کئی ایسے بڑے بڑے ڈاکو گزرے ہیں جو مالداروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتے تھے ایسے ڈاکوؤں کو عوامی حمایت حاصل رہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ڈاکو اپنی طاقت کا استعمال عوام کی بھلائی کے لیے کرتے تھے اور عوام میں ہیرو بن جاتے تھے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی بادشاہ گزرے ہیں جو عوامی بھلائی کے حوالے سے تاریخ میں نیک نام رہے ہیں اور ایسے بھی بادشاہ گزرے ہیں جو اپنے ظلم اور اپنی بربریت کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر ننگ انسانیت کی حیثیت سے موجود ہیں ایرانی حکومتوں کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت کے پرامن استعمال کے پابند ہیں لیکن ان ایرانی یقین دہانیوں کو نہ امریکا نے تسلیم کیا نہ اسرائیل نے بلکہ اسرائیل بار بار ایران کے ایٹمی اداروں پر حملوں کے منصوبے بناتا رہا اور اسے ہمیشہ امریکا کی سرپرستی حاصل رہی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان دونوں ملکوں کے درمیان اس قدر سنگین اختلافات ہیں کہ یہ ملک دو بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس بات کے خطرات موجود ہیں کہ خدانخواستہ یہ دونوں ملک کسی وقت ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار نہ استعمال کریں۔ لیکن امریکا کو ان ملکوں کی ایٹمی صلاحیت اور ایک دوسرے کو لاحق ایٹمی خطرے پر نہ کوئی تشویش ہے نہ ان کے خلاف امریکا کسی قسم کی اقتصادی پابندیاں لگانا چاہتا ہے، ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو امریکا کی بلا سے مگر ایران کو کسی قیمت پر ایٹمی ملک اس لیے نہیں بننے دینا چاہیے کہ ایٹمی ایران سے امریکا کے چہیتے اسرائیل کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ ہے وہ شرمناک امتیازی پالیسی جس کی وجہ سے امریکا ساری دنیا کے عوام میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد واضح طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے بچنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور ایران کے روحانی پیشوا نے بھی حسن روحانی کے موقف کی حمایت کی ہے ایران کی اس پالیسی اور یقین دہانی کے بعد امریکی صدر اوباما کے ''اصولی موقف'' میں 90 ڈگری کی تبدیلی آگئی ہے نہ صرف دہائیوں بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی بلکہ ایران کے صدر حسن روحانی سے اوباما نے ٹیلیفون پر بات چیت بھی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کی دوستی اور دشمنی کے پیچھے دنیا اور دنیا کے عوام کے اجتماعی مفادات ہوتے ہیں یا اس کے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات ہوتے ہیں؟
ہم نے اپنے ایک کسی پچھلے کالم میں ایران کی نئی حکومت کو دو مشورے دیے تھے ایک یہ کہ ایران کو اب اپنی فقہی شناخت کے سحر سے نکل کر ایران کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے دوسرے یہ کہ ایٹمی طاقت بننے کی لا یعنی کوششوں کو ترک کرکے اپنے ملک کو ان انتقامی اقتصادی پابندیوں سے آزاد کرانا چاہیے جن کی وجہ سے اس کی دہشت جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ ایران کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں بوجوہ قومی یکجہتی مستحکم ہے اگر اس قومی یکجہتی کو بے معنی جھگڑوں کی نذر کرنے کے بجائے قومی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے تو بہت کم عرصے میں ایران ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔ مشکل یہ ہے کہ خمینی انقلاب کی بنیاد جن نظریات پر رکھی گئی تھی وہ نظریات ایران کی قومی زندگی میں کافی گہری جڑیں پکڑ چکے ہیں۔
جنھیںآن واحد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اظہار حسن روحانی کی اقوام متحدہ سے وطن واپسی کے موقع پر کیا گیا۔ بعض گروہوں نے حسن روحانی کو جوتے دکھائے۔ ایرانی عوام کو اب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مواصلاتی انقلاب نے دنیا کے عوام کو ایک برادری میں بدل دیا ہے ایسی دنیا میں مذہبی تنگ نظری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس کا نقصان خود مذہبی تنگ نظری کو ہوگا دنیا کو نہیں۔ ایران کو اب نئی دنیا کے قدم سے قدم ملاکر چلنا چاہیے اور سامراجی ملکوں کے خلاف تنہا جنگ لڑنے کے بجائے دنیا کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا چاہیے۔ یہ ایران اور ایرانی عوام کی ضرورت ہے۔ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے بجائے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف اجتماعی جنگ میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ ایک غیر ایٹمی دنیا ہی کرہ ارض پر انسانوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔