سیاسی مجبوری جیت گئی
بالآخر سیاسی مجبوری غالب آ گئی۔ مہنگائی نے اگر آپ کی مت نہیں مار دی تو آپ کو چند دن پہلے کا ایک۔۔۔
بالآخر سیاسی مجبوری غالب آ گئی۔ مہنگائی نے اگر آپ کی مت نہیں مار دی تو آپ کو چند دن پہلے کا ایک کالم شاید یاد ہو گا جو ایک سیاسی مجبوری کے بارے میں تھا یعنی قومی اور عوامی فلاح بلکہ نجات کے ایک منصوبے پر عملدرآمد ایک سیاسی مجبوری بن گیا، اس لیے یہ منصوبہ چونکہ کئی با اثر سیاسی لوگوں کے مفاد کے خلاف تھا، ان کی نفع خوری پر یہ ایک قدغن تھی اس لیے جب ایک بار شروع میں اس پر عمل ہوا تو عوام حیران رہ گئے کہ ان کے کسی مفاد میں حکومت اس قدر سنجیدہ بھی ہو سکتی ہے لیکن حکمرانوں سے بااثر لوگوں نے رابطہ کیا اور خوراک کے صوبائی وزیر نے بیان دے دیا کہ فی الحال اس منصوبے اور عوامی پروگرام پر عمل روک دیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی مجبوری بن گیا ہے۔ اب اس سیاسی مجبوری کو ایک قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ صاف ستھری خالص خوراک کے بارے میں تھا جسے اب ختم کیا جا رہا ہے۔
وزیر خوراک نے محکمہ خوراک کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہوٹلوں ،کھانے پینے کی دکانوں، شادی گھروں اور عام لوگوں کے کھانے پینے کی دوسری جگہوں پر چھاپے ماریں اور جہاں انسانی خوراک ناقص پائی جائے اور مضر صحت ہو اس کو ضبط کر لیا جائے اور دکانوں وغیرہ کو بند کر دیا جائے، اسی طرح شادی ہال بھی بند کر دیے جائیں۔
وزیر خوراک کی اس ہدایت پر پوری طرح عمل ہوا اور متعلقہ محکمے کے عملے نے بڑی دیانت اور فرض شناسی کے ساتھ ناقص خوراک کے مقامات پر چھاپے مارے، کئی ایک کو بند کر دیا گیا، قفل لگائے دیے گئے۔ مقدمے درج ہوئے اور کئی ایک پر جرمانے عائد کیے گئے، اس کی خوب خبریں چھپیں، لوگ بہت خوش ہوئے کہ انھیں خالص غذا ملے گی لیکن انسانی صحت کے لیے مضر اور ناقص خوراک تیار کرنے والے اداروں کے مالکوں میں تھرتھلی مچ گئی اور کاروباری لوگوں نے حکمرانوں سے کہا کہ کیا ہم نے اس لیے ووٹ دیے اور دلائے تھے کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جائے چنانچہ اس احتجاج پر یہ سلوک بند کردیا گیا۔ اس ضمن میں پہلے تازہ خبر اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے۔ ہم عوام کی بک بک بعد میں ہو گی جن کے ووٹوں کی حکومت نے پروا نہیں کی۔
یہ خبر یوں شروع ہوئی کہ ہوٹل اور فوڈ مافیا کامیاب ہو گیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی ہوٹلوں، شادی ہالوں، جعلی مشروبات، شیر فروشوں مٹھائی' اچار اور مربہ جات اور دیگر اشیاء خورونوش کی دکانوں پر چھاپوں اور سیل کرنے کے اختیار سے محروم کر دی گئی ہے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ذرایع کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام اشیاء خورونوش کی دکانوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ایک سیاسی جماعت کے حامی تاجروں' دکانداروں اور کاروباری شخصیات نے اس پر ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت سے رابطہ کیا۔
جس کے حکم پر اتھارٹی کو چھاپے مارنے سے روک دیا گیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو مستقل چھاپوں سے روکنے کے لیے ایک سمری بھی تیار کی گئی ہے جس کی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے منظوری لی جائے گی۔ جس کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی کے پاس کسی بھی ہوٹل' شادی ہال' جعلی مشروبات'دودھ' مٹھائی' اچار اور مربہ جات سمیت دیگر اشیائے خورونوش کی دکانوں کو سیل کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔
اپنے پہلے دورے پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام متعلقہ ہوٹل' شادی ہال یا دکان کی انتظامیہ کو صفائی کے گھٹیا معیار اور ملاوٹ یا غیر معیاری ہونے پر نوٹس جاری کر کے ایک خاص وقت دیں گے کہ وہ ان خرابیوں کو دورکرلیں۔ نوٹس کی مدت گزرنے کے بعد بھی معیار بہتر نہ بنانے پر اتھارٹی کے حکام رپورٹ صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کو بھجوائیں گے۔ جس کے بعد صوبائی وزیر خوراک ہوٹل' شادی ہال یا دکان کو سیل' جرمانہ یا کوئی مزید کارروائی کرنے کے احکامات جاری کرے گا۔ چیف سیکریٹری جاوید اسلم نے مذکورہ سمری منظوری کے لیے وزیراعلیٰ کو بھجوا دی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح سرکاری اجازت سے برملا ملاوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ غذا میں ملاوٹ کو ایک قومی جرم سمجھا جاتا ہے۔ عرب ملکوں سمیت کھانے پینے کا سامان رات بارہ بجے ضایع کر دیا جاتا ہے۔ غذائی سامان کو اسٹور کرنے کا کوئی تصور نہیں جب کہ پاکستان میں جتنا کچھ تھا اسے بھی ختم کیا جا رہا ہے کیونکہ وزیر خوراک کے بقول یہ ایک سیاسی مجبوری ہے لیکن ووٹر عوام کی صحت کوئی مجبوری نہیں ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لاہور کے ایک پوش علاقے میں پھل دیکھا تو وہ گلا سڑا تھا۔
میں نے کہا کہ اسے کون خریدے گا۔ دکاندار نے کہا، ذرا رک جائیںابھی یہ سارا پھل بک جائے گا اور ہوٹلوں میں جو چاٹ بنتی ہے اور سلاد تیار کی جاتی ہے، وہ اسی سے تیار ہوتی ہے۔ اس میں مصالے ڈال کر اسے خوش ذائقہ بنا دیا جاتا ہے اور اس کی ناگوار بو بھی دور ہو جاتی ہے بلکہ یہ خوشبو دار ہو جاتی ہے۔ یہ ہر روز ہوتا ہے اور یہ کسے معلوم نہیں۔ حکومتیں تو جان ومال کی حفاظت کرتی ہیں، عوام کی جان اور صحت کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی مگر سیاسی مجبوری دوسری بات ہے۔