مسئلہ پرانا ہے مگر دھرنا نیا
عمران خان کے دھرنا روکنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، کیونکہ موصوف نے خود بھی حزب اختلاف کے دنوں میں خوب دھماچوکڑی مچائی
مولانا صاحب کا دھرنا تو بالکل نیا ہے، مگر مسئلہ پرانا ہے۔ (فوٹو: فائل)
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں تیرہ بار عام انتخابات ہوئے، اور ہر انتخاب کے بعد عوام اور سیاستدانوں نے ثابت کیا کہ ہم بحیثیت قوم جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔ بعد از انتخابات ملک کبھی بھی سیاسی استحکام کی جانب گامزن نہیں ہوا۔ وجہ ہر بار ایک ہی تھی، اور وہ یہ کہ انتخابات ہارنے والی جماعت نے انتخابی نتائج درست مانتے ہوئے اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔
یوں تو انتخابات کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر گزشتہ تین انتخابات کے نتائج کی بات کرلیتے ہیں۔ 2008 کے عام انتخابات میں پی پی پی نے کامیابی حاصل کی، اور وفاق کے علاوہ صوبہ سندھ میں اپنی حکومت قائم کی۔ ان انتخابات کے نتائج مسلم لیگ (ق) نے نہیں مانے اور الزام لگایا کہ صدر پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کے ساتھ ڈیل کی، جس کے باعث انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2008 کے بعد 2013 میں عام انتخابات ہوئے، جن میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی سمیٹی۔ بعدازاں وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ مگر ان انتخابات کے نتائج کو بھی ہارنے والی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا۔ نتائج نہ ماننے والوں میں پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ یہ امر بھی باعث حیرانی تھا کہ جن صوبوں میں ان جماعتوں نے انتخابات جیتے وہاں بقول ان کے رہنماؤں کے انتخابات شفاف ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ہر جماعت کو کہیں نہ کہیں اقتدار میں حصہ مل گیا۔ اور یوں عموعی طورپر نتائج کو تسلیم کرلیا گیا۔ مگر عمران خان نے کہا چار حلقے کھولے جائیں اور تحقیقات کی جائیں تاکہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی کا شور برپا نہ کیا جائے۔
اس مطالبے کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہوسکتا ہے آنے والے انتخابات دھاندلی کے تعفن سے محفوظ رہتے۔ تاہم عمران خان کا مطالبہ جب ایک سال کے عرصے تک پورا نہیں ہوا تو خان صاحب سڑکوں پر آگئے۔ اور آخرکار مشہور زمانہ دھرنا اسلام آباد میں برپا ہوا، جو 126 دن جاری رہا اور قوم اضطراب کی کیفیت میں مبتلا رہی۔ اس دھرنے میں علامہ طاہرالقادری نے بھی حسب ضرورت تڑکا لگایا۔ مگر اس دھرنے کا نتیجہ کیا نکلا؟ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔
2013 کے بعد 2018 میں عام انتخابات ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت قائم کی۔ مگر ایک بار پھر حزب اختلاف کی تمام جماعتیں لٹھ لے کر کھڑی ہوگئیں اور دھاندلی کے راگوں پر رقص شروع کردیا۔ پورا ایک سال تک حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح خان صاحب نے اپنے حزب اختلاف کے دور میں حکومت کے ساتھ کیا۔ اور آخرکار حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سڑکوں پر آنے کےلیے تیار ہے۔ اور تمام قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ دھرنا اب مشکل ہی ٹلے۔
اگر دھرنا ہو بھی جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ اول حکومت یہ برا وقت صدقہ دے کر نکال جائے اور دوم حکومت گرجائے۔ پھر عام انتخابات اور ایک نئی حکومت۔ تاریخ کو بنیاد بناکر کہا جاسکتا ہے صرف اداکار تبدیل ہوجائیں گے اور منظر وہی رہے گا۔ یعنی ہارنے والے نہ ہار مانیں گے اور نہ احتجاج سے باز آئیں گے۔ اگر سیاستدانوں نے روش نہ بدلی تو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام محض خواب رہے گا۔
سیاستدانوں کے کردار کو بھی ذرا موضوعِ بحث بناتے ہیں۔ بطور عام پاکستانی مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ سیاستدان اخلاقی پستی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جسے بیاں کرنا بھی اب ممکن نہیں۔ ہم جب مغربی دنیا کے سیاستدانوں کو دیکھتے ہیں تو شرمندگی کے ساتھ حسرت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ حسرت اس لیے کہ انتخابات مغربی دنیا میں بھی ہوتے ہیں لیکن ہارنے والے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والوں کو مبارک دیتے ہیں اور نیک جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یوٹیوب پر صدر اوباما اور صدر ٹرمپ کی پہلی پریس کانفرنس دیکھ لیجئے۔
میں اس خوش گمانی میں مبتلا ہوں کہ شاید پاکستانی جمہوریت اپنی ارتقائی منازل طے کرکے اُس مقام پر پہنچ سکے جہاں ہارنے والے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والوں کو مبارک باد دیں۔ اس موقع پر مرزا غالب یاد آگئے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
عمران خان صاحب کے دھرنا روکنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، کیونکہ موصوف نے خود بھی حزب اختلاف کے دنوں میں خوب دھماچوکڑی مچائی۔ مگر ایک بات پر خان صاحب غور کرسکتے ہیں کہ دھرنے سے نمٹنا کیسے ہے؟ اس سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر بار بار سن سکتے ہیں۔ جس میں مولانا صاحب دھرنے والوں سے نمٹنے کے نسخے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو پیش کررہے تھے۔
چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ اگر سیاستدان مل بیٹھ کر انتخابی عمل کے دوران آنے والے مسائل کو حل کرنے کےلیے عملی اقدامات کریں تو شاید دھرنوں کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا صاحب کا دھرنا تو بالکل نیا ہے، مگر مسئلہ پرانا ہے۔ اور اس دائمی مسئلے کا علاج بہرحال دھرنا تو ہرگز نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔