راولپنڈی؛ سیاستدانوں کی ملکیت کے شبہ میں 12 بے نامی جائیدادیں قرق

شہباز رانا  ہفتہ 26 اکتوبر 2019
یہ جائیدادیں اصل مالکان نے اپنے ذرائع آمدن یا ٹیکس کوچھپانے کیلئے دوسروں کے نام پر رکھی ہوئی ہیں فوٹو: فائل

یہ جائیدادیں اصل مالکان نے اپنے ذرائع آمدن یا ٹیکس کوچھپانے کیلئے دوسروں کے نام پر رکھی ہوئی ہیں فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے راولپنڈی ڈویژن میں اربوں روپے مالیت کی  12 بے نامی جائیدادیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ سیاستدانوں کی ملکیت ہیں جمعہ کے روزعبوری طور پر قرق کرلیں۔

اسلام آبادکے زون ون میں 3141 کنال اراضی جو 6 مختلف مقامات پر مقامات پر موجود ہے قرق کی گئی۔ یہ پراپرٹی 12 مختلف افراد کے نام ہے جن میں تین افراد ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ایف بی آرکو شبہ ہے کہ اصل مالک توصیف احمد ہیں۔ پراپرٹی کے بے نامی داروں میں طاہر رؤف، ایم صادق، ایم انس، اعجاز احمد،عبدالشکور،فیصل احمد،وقاص نسیم اکرم ،احمد یار ، ثناء حسین جیلانی، سید فیاض جیلانی اور سکندر حسین جیلانی شامل ہیں۔

یہ جائیدادیں اصل مالکان نے اپنے ذرائع آمدن یا ٹیکس کوچھپانے کیلئے دوسروں کے نام پر رکھی ہوئی ہیں۔ راولپنڈی ڈویژن میں ایف بی آرکی جائیدادوں کی قرقی کے ضمن میں یہ دوسری کارروائی ہے۔ اس سے قبل 2 جولائی کوایف بی آر نے چھ جائیدادیں قرق کی تھیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ن لیگ کے سینٹر چودھری تنویرکی ملکیت ہیں۔

اب تک حکومت کو بے نامی جائیدادوں کی قرقی کے عبوری عرصہ میں اس لیے توسیع دینا پڑی ہے کیونکہ تفتیش کار ریفرنس دائر کرنے کے معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں کرسکے۔ بے نامی قانون کے سیکشن 22(3) کے تحت متعلقہ افسر شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد تین ماہ تک بے نامی جائیداد کو ضبط کرسکتا ہے۔

ایف بی آر ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کی طرف سے کیس کے فیصلے تک جائیداد کو قرقی میں رکھ سکتا ہے۔اس وقت ایف بی آرکے بے نامی زونز کو شدید انسانی اور مالی بحران کا سامنا ہے۔اس کیلئے وزارت خزانہ سے 25 کروڑ مانگے گئے ہیں جو ابھی تک نہیں ملے۔

پی ٹی آئی کی حکومت ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ کرکے انہیں 27 لاکھ تک لانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس وقت ٹیکس فائلر 26 لاکھ ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد پانچ کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے جو آبادی کا 26 فیصد ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔