ادھڑے ہوئے بخیے!!

شیریں حیدر  اتوار 27 اکتوبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں تو تمہیں ایک فلم کی کہانی سنا رہی تھی جو میں نے حال ہی میں دیکھی ہے۔ فلمیں تو یوں بھی انسانوں کی نا آسودہ خواہشات کی بنیاد پر کامیاب ہوتی ہیں ۔ اس میں مستقبل کے بارے میں دکھایا جاتا ہے کہ لوگوں کو ایک بہت اچھی آپشن میسر ہوتی ہے کہ اگر زندگی میں کبھی ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہو، کسی وقت انھوں نے کوئی غلط قدم اٹھا لیا ہو یا کوئی غلط فیصلہ کر دیا ہو تو وہ وقت کو اتنا rewind کر کے اس دور میں واپس جا سکتے ہیں اور اپنی اس وقت کی جانے والی غلطی یا غلط انتخاب کو سدھار سکتے ہیں۔

اس وقت میں واپس جا کر ، پہلے والی آپشن کی بجائے دوسری آپشن چن کر وہ گزرے ہوئے وقت کے واقعات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نتائج کو تبدیل کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ میں تمہیں بتا رہی تھی کہ اسی نوعیت کی میں نے کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی فلم بھی دیکھی تھی جو کہ یقینا کسی انگریزی فلم کا چربہ ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں تصوراتی ہیں، ٹائم مشین کے ذریعے ماضی یا حال میں سفر کرنا زیادہ تر سائنس فکشن کی فلموں کا موضوع ہے ۔ میں نے تو بات برائے بات کی تھے، سوچ رہی تھی کہ ایسی باتوں سے سفر جلدی کٹ جائے گا مگر یہ تم نے کیا سوال کر دیا اسمی!!!

’’ آپ بتائیں کہ آپ کے دل میں کبھی یہ خواہش جاگی کہ آپ کی زندگی کا کوئی وقت واپس آئے اور آپ دوبارہ اسے جی سکیں، کسی مختلف انداز سے؟ ‘‘ تمہارا یہ سوال تھا یا خواہشات کی پٹاری میں سے کھل جانے والے ان ہزاروں لاکھوں سنپولیوں کا جھرمٹ۔ سفر بھی ختم ہو گیا مگر میں اپنی زندگی کے اس دور کے سفر سے واپس ہی نہیں آ پا رہی۔ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرا موقع پہلے صرف کہانیوں میں ملتا تھا اور اب کہانیوں ، فلموں اور ڈراموں میں، زندگی میں نہیں ۔ اصل زندگی کوئی سائنس فکشن کی فلم نہیں کہ جس میں ہم اتنے برس واپس چلے جائیں اور آپشن الف کی بجائے ، آپشن ب کو چن لیں ۔

ہم میں سے کون ہے جس کی زندگی میں پچھتاؤں کے باب نہ ہوں، کچھ ان کہی باتیں نہ ہوں، ادھوری اور ناکام محبتوں کی کہانیاں نہ ہوں، ان چاہے فیصلے نہ ہوئے ہوں ، خلاف رضا جئے ہوئے لمحات نہ ہوں ، کسی ایک دور کو طویل عرصہ تک جی لینے کی خواہش نہ ہو۔ کتنے پیارے پیارے رشتے تھے، جنھیں ہم کھو کر ان کی قدر جان پاتے ہیں، کس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ وقت لوٹ آئے جب وہ پیارے لوگ ہمارے پاس واپس آ جائیں جو اب کبھی نہ آنے والے ہیں۔ کسے اپنا بیت جانے والابچپن واپس پانے کی خواہش نہیں ہوتی، کس کا دل نہیں چاہتا کہ بے فکری کا وہ دور لوٹ آئے ، کوئی ذمے داری نہ ہو، کوئی پریشانی نہ ہو، صرف پیار اور توجہ ملے ۔ وہ بچپن، جس میں رنجشیں، خواہشات بھی چھوٹی تھیں اور مسائل بھی ۔

’’ میٹرک کے امتحان سے دو ماہ پہلے کا وقت… اس وقت نے میری زندگی کا رخ بدل دیا تھا!! ‘‘ میں گاڑی چلاتے ہوئے بھی تمہاری سوالیہ نظر کو خود پر محسوس کر رہی تھی۔ ’’ مجھے اگر ایک بار واپس جانے کا موقع ملے تو میں اس دور میں واپس جا کراپنا وہ فیصلہ تبدیل کرنے کی کوشش کروں جس نے میری زندگی کا ڈھب بدل دیا تھا!! ‘‘ کچھ دیرسوچتی توتمہارے سوال کے سو جواب ہو سکتے تھے مگر اللہ کا کرم ہے کہ میں اپنی زندگی میں ہونے والے بیشتر واقعات و حادثات پر مطمئن ہوں۔

والدین، خاندان، گھر، شادی، بچے ، دوستیاں۔ دوبارہ موقع ملے تو بھی ان میں سے زیادہ تر میں یہی پانا چاہوں گی۔ اب جانتی تھی کہ تم اس کی تفصیل بھی پوچھو گی، مختصراً تمہیں بتا دیا تھا کہ میں نے اس وقت بہت جلد بازی میں اپنے مضامین سائنس کی بجائے ، آرٹس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بہت تفصیل میں جاتی تو شاید گاڑی بھی نہ چلاپاتی۔ اب بتاتی ہوں کہ اس وقت نے میری زندگی میں کیا انقلابی تبدیلیاں بپا کیں کہ میں نے تمہارے سوال کا فی الفور جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا ۔

میٹرک کے امتحان سر پر تھے… ہمیں بائیولوجی کے پریکٹیکل کرنا تھے اور بجائے دو سال میں ساتھ ساتھ پریکٹیکل کروانے کے ، امتحانوں سے قبل دی جانے والی ایک ماہ کی چھٹیوں سے پہلے، پہلے کیمسٹری کے پریکٹیکل کروائے گئے اور بائیولوجی کا پہلا یا دوسرا پریکٹیکل تھا، مینڈک کی جراحی کی جانا تھی ۔ بائیولوجی کی شفیق سی استاد تھیں، ان کے ساتھ ڈیوٹی لگ گئی ہماری انگریزی کی استاد کی کہ انھوں نے لیب میں لڑکیوں کا ڈسپلن قائم رکھنا تھا۔

دو سیکشن کی ملا کر لگ بھگ ساٹھ پنسٹھ لڑکیاں تھیں، لیب میں گھٹن سی ہو گئی تھی، جونہی کیلوں سے لکڑی کے ایک تختے پر ٹھکے ہوئے مینڈک کے پیٹ کو چیرا لگا، میرا سر گھوم گیا۔ شاید اس لیب میں گھٹن کا اثر تھا یا پھر میں نے یوں کسی جاندار پر پہلی بار نشتر چلتے ہوئے دیکھا تھا، اندازہ ہی نہ تھا کہ دل ایسا کمزور ہے کہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گا۔ مینڈک کے ساتھ تو جانے کیا ہوا مگر مجھے ہوش میں لانے کی تدابیر کر کے گھر پر فون کر کے اطلاع کی گئی اور گھر بھجوا دیا گیا۔

بائیولوجی اور میتھس کی اساتذہ نے بہت کوشش کی کہ وہ وجہ جان سکیں کہ ایسا کیوں ہوا، کہیں میں ناشتہ کیے بغیر تو اسکول نہیں چلی گئی تھی، کسی وائرل فلو وغیرہ کی وجہ سے گھٹن محسوس ہوئی ہو یا کچھ اور مگر کوئی وجہ دریافت نہ ہوئی۔ یوں ان کی ایک ذہین ترین طالبہ نے… ان کی مخالفت کے باوجود امتحان سے عین دو ماہ پہلے ( بے سوچے سمجھے ) اپنے مضامین سائنس سے تبدیل کر کے آرٹس میں تبدیل کر لیے۔ بورڈ کے امتحان کے لیے داخلہ جا چکا تھا، دوبارہ نئے مضامین کے ساتھ داخلہ بھیجا گیا ۔

میں نے اس اقدام پر اپنے ابا جی کو بہت اپ سیٹ بھی دیکھا اور اندازہ ہوا کہ ان کے دل میں کتنی راسخ خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنتی۔ میں نے ان کے سامنے مجبوری ظاہر کی کہ میں کبھی اپنے کسی مریض کو چیرا نہیں لگا سکوں گی، کسی کا خون بہتا ہوا دیکھوں گی تو خود بے ہوش ہو جاؤں گی۔ وہ خوش تو نہ تھے مگر خاموش ہو گئے ۔ دن رات کی محنت سے دو ماہ کے اندر اندر آرٹس کے مضامین کے ساتھ امتحان دے کر بھی میں نے اسکول میں پہلی پوزیشن اور بورڈ سے وظیفہ حاصل کیا ۔ وقت گزرا، اسکول سے کالج اور کالج سے شادی کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔

وجود میں کچھ کرنے کا کیڑا تھا، شادی بھی میرے شوق کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی اور میں نے اپنی زندگی کی دیگر ذمے داریوں اور بچوں کے ساتھ بھی اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کیا، جب تک کہ مجھے یہ نہ لگا کہ اب میں کچھ پڑھ لکھ گئی ہوں۔ یہ سب اسی طرح ہونا تھا، شاید یہی میرا نصیب تھا مگر جب بھی اس وقت کو یاد کرتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کہ کاش اس وقت کوئی ایسا طریقہ ہوتا کہ تشخیص ہو سکتی کہ مجھے کیا نفسیاتی مسئلہ تھا، کوئی میری کونسلگ کرتا، کوئی مجھے سمجھاتا ۔ شاید ایسا پہلی بار دیکھنے پر ہوا، جو دوسری دفعہ ہوتا تو میں یوں بے ہوش نہ ہوتی ۔ جو سہولتیں آج کل کے بچوں کو میسر ہیں ، وہ اس وقت ہمیں نہیں تھیں، والدین، اساتذہ، دیگر بزرگوں اور بچوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا، پیار محبت سے بات سمجھانے کا رواج کم تھا ، ڈپٹنے، طنز، ڈانٹنے اور طعنے دینے کا زیادہ ۔

اپنے اس فیصلے کی پھانس اس وقت کم تھی، جوں جوں وقت گزرا، یہ زخم کئی موقعوں پر ہرا ہو جاتاہے، بخیے ادھڑ جاتے ہیں اور ایسا اب تک ہو رہا ہے۔ والد صاحب دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو اس وقت مجھے اور بھی شدت سے احساس ہوا ، والدہ کی اچانک بیماری ، اس کی بر وقت تشخیص نہ ہو پانا اور اس کے نتیجے میں ان کی حالت کا اس حد تک خراب ہو جانا اور بالآخر ان کا دنیا سے رخصت ہو جانا بھی ایسے واقعات تھے کہ جس دوران میں نے بارہا سوچا کہ کاش میں خود ڈاکٹر ہوتی تو چیزوں کو بہتر سمجھ سکتی۔

پہلے میں یہی سوچتی تھی کہ صرف والد صاحب کو میرے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور میں نے ان کا شوق پورا نہیں کیا، مگر اب احساس ہوتا ہے کہ یہ تو میری اپنی خواہش بھی تھی اور اب بھی ہے، لیکن خدا کو منظور نہ تھا تو خدادادصلاحیت سے بھی مالامال ہونے کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا ۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں ، بچوں کو ہائی اسکول میں پہنچتے ہی، ان کے تعلیمی اداروں میں مستقبل کے حوالے سے راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے بچپن کی حدود سے لڑکپن میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے دل میں اپنے مستقبل کے حوالے سے کئی منتشر سوچیں اور خیالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اس مقام پر ان کی اس سلسلے میں رہنمائی اہم ہے کہ ان کی سوچوں کو ارتکاز فراہم کیا جائے، انھیں بتایا جائے کہ ان کے لیے مستقبل کی کون سی لائن بہتر ہو سکتی ہے۔

اب بھی ہمارے ہاں ایسا نظام نہیں مروج کیا جا سکا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر بچے وہ کر رہے ہیں، جو ان کے والدین چاہتے ہیں مگر اس میں ان کی منشا شامل نہیں ہوتی یا انھیں اس سلسلے میں رہنمائی میسر نہیں ہوتی۔ اگر یونہی رہا تو ایسا ہی ہو گا کہ ان بچوں سے بھی جب عمر کے اس حصے میں کوئی یہ سوال کرے گا کہ وہ کس وقت کو دوبارہ جینا چاہیں گے، اپنی کسی غلطی کو سدھارنا چاہیں گے، تو ان کا جواب بھی لگ بھگ عمر کے اسی دور سے تعلق رکھتا ہو گا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔