پہلی بار صرف خواتین کی خلائی چہل قدمی

 اُمِ حبیبہ  منگل 29 اکتوبر 2019
’کرسٹینا کاچ ‘اور ’جیسیکا میر ‘نے تاریخ کا منفرد اعزاز اپنے نام کر لیا۔

’کرسٹینا کاچ ‘اور ’جیسیکا میر ‘نے تاریخ کا منفرد اعزاز اپنے نام کر لیا۔

آج کے دور میں شاید ہی کوئی شعبہ ایسا بچا ہو جس میں خواتین نے حصہ نہ لیا ہو، اب وہ ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواتین مردوں سے بھی آگے نکل رہی ہیں۔ ’کے ٹو‘ کی چوٹی عبور کرنا ہو یا جہاز اڑانا ہو، خواتین نے ہر جگہ اپنی کام یابی کا عَلم بلند کیا ہے۔

حال ہی میں پہلی بار مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ٹیم کو خلا میں جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں ’صرف خواتین پر مشتمل خلائی چہل قدمی کا پہلا واقعہ‘ ہے، جس میں ان دو امریکی خواتین  خلا بازوں خلا باز کرسٹینا کاچ (Christina Koch) اور جیسیکا میر (Jessica Meir)  نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے باہر نکل کر اِس اسٹیشن کے ایک خراب پاور کنٹرولر کو تبدیل کیا۔ دونوں خواتین نے 7 گھنٹے اور 17 منٹ خلا میں گزارے۔

اس مشن کی ابتدا اس سال کے شروع میں کی گئی تھی،کرسٹینا کوچ کو اس سال مارچ میں دوسری خواتین عملے کے ساتھ خلا میں جانا تھا، لیکن ’ناسا‘ کو اپنے اس منصوبے کو چند روز پہلے ہی ختم کرنا پڑا، کیوں کہ دوسرا درمیانی درجے کا ’خلائی لباس‘ تیار کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ چناں چہ خلا میں جانے کے لیے دوسرا پروگرام کے لیے اکتوبر طے ہوا۔

’ناسا‘ کے ڈپٹی چیف خلا باز میگھن میک آرتھر نے خواتین کے خلائی راستے کو ایک سنگ میل قرار دیا اور کہا کہ ’ناسا‘ (NASA) میں خواتین اب ہر سطح پرمضبوط ہو گئی ہیں۔ اس مشن کی قیادت کرنے والی کرسٹینا کوچ ایک الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔ اس خلائی سفر سے پہلے وہ  چار بار خلا میں جا چکی ہیں ، لیکن اُس سفر میں مختلف مرد خلانورد بھی ان کے ہم رکاب تھے، جب کہ جیسیکا میر کا یہ پہلا خلائی سفر تھا، وہ سمندری حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

خلا میں شمسی توانائی کے نظام کو نصب کرنے کے لیے کرسٹینا کاچ کے  ایک روبوٹ کے بازو لگائے گئے تھے، جو اسٹیشن میں توانائی کے لیے ان کی مددگا رہیں۔ جیسیکا میر ہینڈلز کے استعمال میں مہارت رکھتی ہیں۔ کاچ اور میر بی بیٹری چارج، ڈسچارج اور یونٹ کی تبدیلی کے کام کے سبب ’بی سی ڈی یو‘ (BCDU)کے نام سے معروف ہیں۔

خلائی اسٹیشن شمسی توانائی پر انحصار کرتا ہے، لیکن اس دارومدار زیادہ تر حصہ براہِ راست سورج کی روشنی پر ہے اور ’بی سی ڈی یو‘ ان میں آنے والی توانائی کو قابل استعمال بناتے ہیں۔ 1983ء میں امریکا نے ساتویں خلائی شٹل میں اپنی پہلی خاتون سیلی رائڈ (Sally Ride) کو خلا میں بھیجا تھا۔

اس سے پہلے روسی خاتون ویلنٹینا تیریشکووا (VALENTINA TERESHKOVA) دنیا کی پہلی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی تھیں، جب کہ روسی خلاباز الیگزے لیونوف پہلے انسان تھے جنہیں خلا میں چہل قدمی کا اعزاز حاصل ہوا۔

تاہم دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس وقت زیادہ خواتین خلا باز امریکی ہیں۔ ’ناسا‘ کی قائم مقام منتظم کین باور ساکس (KEN BOWERSOX) کا کہنا ہے کہ بہت جلد ایسا وقت بھی آئے گا، جب خواتین کا خلا میں جانا معمول کی بات ہو گی اور اس بات پر کوئی جشن نہیں منایا جائے گا۔ جیسیکا میر مجموعی طور پر 14ویں امریکی خلا باز ہیں، جو خلا میں گئی ہیں۔

اس سے پہلے مرد خلانورد ہی خلائی سفر کرتے اور تحقیق اور تجربات کرتے تھے، لیکن بعد میں خواتین کو بھی اس کے عملے میں شامل کیا گیا، تاکہ وہ بھی اسے کام یاب بنانے اور مزید بہتر کرنے کے لیے اپنی مہارت استعمال کریں اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر کریں، اس تجربے سے ثابت ہوا کہ مردوں کی طرح خواتین بھی بہت سارے چیلنجوں کو پورا کر سکتی ہیں۔

کرسٹینا کاچ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ تاریخی نوعیت کی وجہ سے آج ہم بھی یہ کام کر رہی ہیں۔ ماضی میں خواتین زیادہ تر آسان، ایک جگہ بیٹھ کر یا کم چلنے پھرنے والے کام کرتی تھیں، لیکن ہمارا خلائی کام میں حصہ ڈالنا بہت فخر کی بات ہے۔ جب پوری ٹیم مل کے کام کرتی ہے، تو کام یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کرسٹینا کی بات بالکل درست ہے کہ اب خواتین نے زمین کی بلندیوں سے آسمان کی وسعتوں میں پہنچ کرایک تاریخ رقم کی ہے، پہلے فضاؤں میں محو پرواز ہو کر اور اب اس سے بھی بلند تنہا خلا کی طرف پیش قدمی۔۔

یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ صرف خواتین خلابازوں نے خلا میں چہل قدمی کی اور اپنے مشن کو پورا کیا، اس سے قبل خواتین خلا بازوں کے ساتھ مرد خلا باز بھی خلا میں چہل قدمی کے لیے جاتے رہے ہیں۔ امریکی خواتین کی خلا میں چہل قدمی  کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے براہ راست مشاہدہ کیا اور انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت زبردست کام کررہی اور میں تاریخ رقم کرتی دو بہادر امریکی خواتین سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔