کڈنی ہل پارک منصوبہ بالآخر بلدیہ عظمیٰ کی توجہ کا مرکز بن گیا

سید اشرف علی  منگل 29 اکتوبر 2019
1974میں بلدیہ عظمیٰ کے سپرد ہونیوالے اس پارک میں کسی قسم کا تفریحی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ فوٹو: فائل

1974میں بلدیہ عظمیٰ کے سپرد ہونیوالے اس پارک میں کسی قسم کا تفریحی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ فوٹو: فائل

کراچی:  50 سال کی تاخیر کے بعد کڈنی ہل پارک منصوبہ بلاآخر اب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

بہادرآباد چورنگی سے کچھ فاصلے اور رنگون والا ہال سے متصل 62 ایکڑ کی اراضی پر قدرتی لینڈ اسکیپ، پہاڑی و نشیبی سلسلے اور ہزاروں قیمتی نباتات کے ساتھ خود رو جھاڑیوں کا ایک چھوٹا جنگل ہے، ہجرتی اور مقامی پرندوں کی آمد سے یہ مقام flora and funna(جنگلی حیاتیات اور نباتات) کا حسین امتزاج ہے جسے عوامی تفریح گاہ اور پورے شہر کی ماحولیات ( Ecology) کو بہتر بنانے کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

خوبصورت قدرتی مناظر کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ پانچ دھائیوں تک یہ مقام ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل رہا اور عوام پر اس کے دروازے بند رہے مگر غیرقانونی تعمیرات اور نشئی افراد کا مسکن رہا، کچھ نجی تعمیرات اور واٹر بورڈ کی اسٹاف کالونی قائم تھی وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر منہدم کردی گئی۔

ہارٹیکلچرسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے کونسل ممبر رفیع الحق نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں 20سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے کئی ہزار درخت کاٹے گئے۔ ماضی میں درختوں کا تناسب 7فیصد تھا جو گھٹ کر صرف 3 فیصد رہ گیا، اصولی طور پر ایک انسان کو آکسیجن کی فراہمی کے لیے سات درخت کی ضرورت ہوتی ہے،بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے کڈنی ہل پارک میں شجر کاری مہم ایک اچھا اقدام ہے تاہم یہ عمل پائیدار اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ہونا چاہیے، پودا لگانے کے ساتھ ساتھ اس کی مسلسل دیکھ بھال ہونی چاہیے۔

ادارہ ترقیات کراچی نے 1966 میں کے ڈی اے اسکیم 32 کی منصوبہ بندی کی جس میں پارک کے لیے بھی اراضی مختص کی جو پہاڑی سلسلہ اور کڈنی کی مماثلت کی وجہ سے کڈنی ہل پارک کہلایا جانے لگا، بعدازاں اسے سینئر ڈائریکٹر پلاننگ کے ڈی اے احمد علی کے نام سے بھی موسوم کردیا گیا یوں اس کا آفیشل نام احمد علی کڈنی ہل پارک پڑگیا۔

ادارہ ترقیات کراچی نے 1974 میں ہی یہ پارک بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سپرد کردیا لیکن بدقسمتی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی نے بھی یہاں کسی قسم کا تفریحی منصوبہ نہیں بنایا، ایکسپریس کے سروے کے مطابق ماضی میں متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کے باوجود کڈنی ہل پارک میں ہزاروں کی تعداد میں بڑے درخت، خودرو پودے اور جڑی بوٹیاں پہلے سے لگی ہوئی ہیں۔

یہاں کیکر کے سیکڑوں درخت ہیں اس کے علاوہ نیم، بیری ، برگد، پیپل، پیلو اور دیگر اقسام کے پرانے درخت بھی ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کراچی زو، میونسپل سروسز، سٹی وارڈن اور محکمہ ہارٹیکلچر کے افسران وعملہ گذشتہ ایک ماہ سے انتھک محنت کررہا ہے جس کی وجہ سے کڈنی ہل پارک کی خوبصورت شکل نکل آئی ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے عملے نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب وہ کڈنی ہل پارک میں کام کرنے آئے تو بااثر افراد نے انھیں نہ صرف کام کرنے سے روکا بلکہ مختلف جگہوں سے فون بھی کرائے۔

یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا ایسے میں میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن فوری طور پر کڈنی ہل پارک پہنچے، نہ صرف دباؤ برداشت کیا بلکہ تمام لوگوں پر واضح کردیا کہ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے آرڈر پر کیا جارہا ہے جس کے بعد تمام افراد یہاں سے چلے گئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، اب وہ پریشر مکمل طور پر ہٹ چکا ہے اور مسلسل شجرکاری مہم اور صفائی ستھرائی کے کام کیے جارہے ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک میں تمام الاٹمنٹ کو کینسل کردیا ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 100سے زائد غیر قانونی رہائشی گھروں اور دیگر تجاوزات کومنہدم کردیاجن میں واٹر بورڈ کی اسٹاف کالونی بھی شامل تھی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس محدود وسائل ہیں اس لیے فی الحال یہاں کوئی بڑی تعمیرات نہیں کی جائیگی تاہم ایک ویڑنری منصوبہ بندی ، مخیر حضرات اور نجی اداروں کے تعاون سے اربن فاریسٹ بنایا جارہا ہے جو نہ صرف شہریوں کے لیے تفریح کا باعث ہوگا بلکہ پورے شہر کو اکسیجن فراہم کرے گا اور شہر کا ایکیولوجی سسٹم بہتر کرے گا۔

میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد وفت کو روکنے کے لیے چار گیٹ لگادیے گئے ہیں اور سٹی وارڈن کو بھی تعینات کردیا گیا ہے،کڈنی ہل پارک منصوبے کے فیز ٹو کیلیے کنسلٹنٹ کا تقرر کیا جائے گا جو ایک جامع منصوبندی تشکیل دیگا، اس فیز میں برڈز ایواری، اوپن انکلوژر جس میں سفاری پارک کی طرز پر جانور رکھے جائیں گے، بچوں کے لیے پلے لینڈ، مصنوعی جھیل، کھانے پینے کے اشیا کے لیے کینٹین ، ٹک شاپس وغیرہ تعمیر کی جائیں گی، اس فیز میں بھی ہزاروں درخت لگائے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔