لوگ ابھی تک کیسٹ، پیجر، فیکس اور چیک کا استعمال کیوں کر رہے ہیں؟

میگزین رپورٹ  جمعرات 31 اکتوبر 2019
 بھلے ہی آپ کو اب جاپان میں مزید پیجر نہ ملیں مگر یہ اب بھی دنیا میں دیگر کئی مقامات پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

بھلے ہی آپ کو اب جاپان میں مزید پیجر نہ ملیں مگر یہ اب بھی دنیا میں دیگر کئی مقامات پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کوئی ایک ہزار کے قریب لوگوں نے، جو ابھی تک جاپان میں پیجر استعمال کرتے تھے، پیجر سروس بند کیے جانے پر آنسو بہائے ہوں گے۔

رُکیں، شاید آپ سوچیں کہ کیا پیجر ابھی تک چل رہے تھے؟ بھلے ہی آپ کو اب جاپان میں مزید پیجر نہ ملیں مگر یہ اب بھی دنیا میں دیگر کئی مقامات پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور صرف پیجر ہی وہ ’قدیم‘ چیز نہیں جو دنیا میں اب بھی استعمال ہو رہی ہے۔

1: پیجر

یہ کیسے کام کرتے ہیں؟

یہ چھوٹے ریڈیو ریسیورز کی طرح ہوتے ہیں جسے آپ اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ ہر صارف کا ایک ذاتی کوڈ ہوتا ہے جس کا استعمال لوگ آپ کو پیغام بھیجنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ ہر پیغام پیجر کی سکرین پر چمکتا نظر آتا ہے۔

یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟

دنیا کے باقی بچ جانے والے پیجرز میں سے 10 فیصد سے زائد برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک لاکھ 30 ہزار ملازمین کے زیرِ استعمال ہیں۔2017 ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے 80 فیصد ہسپتالوں میں یہ اب بھی استعمال میں ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ان میں ہمیشہ طاقتور سگنل آتا ہے۔ ہسپتالوں کے چند کمروں کو ایکس ریز کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے جہاں پر فون کے سگنل بلاک ہو جاتے ہیں۔ مگر پیجر کے ریڈیو سگنلز سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ تیز بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایمرجنسی سروسز میں فائدہ مند ہوتے ہیں مگر پیجر اب شاید زیادہ عرصے تک باقی نہ رہیں۔ این ایچ ایس کا منصوبہ ہے کہ 2021 تک انھیں مکمل طور پر پیغام رسانی کے ایک جدید سسٹم سے تبدیل کر دیا جائے گا۔

2: چیک

یہ کیسے کام کرتے ہیں؟

یہ پرچیوں کا ایک کتابچہ ہوتا ہے جو آپ کا بینک آپ کو دیتا ہے۔ آپ اس میں سے ایک پرچی (چیک) پھاڑ لیں، اس پر کچھ ہندسے لکھیں (جو آپ کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کے برابر یا اس سے کم ہوں) اور کسی شخص کو دے دیں۔ وہ شخص یہ پرچی اپنے بینک کو دے گا جو اسے اس کے بدلے پیسے دے گا۔ بس اتنی سی بات ہے۔

یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟

بھلے ہی یہ آج اتنے مقبول نہ ہوں مگر یہ آپ کی توقعات سے زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں ایسے چھوٹے سٹور جو کریڈٹ کارڈ قبول نہیں کرتے، یا وہ مالک مکان جو چیک کی صورت میں رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، انھیں ادائیگیوں کے لیے 2015 میں ہر ماہ فی گھرانہ تقریباً 7.1 چیک لکھے گئے۔

برطانیہ میں 2018 تک چیک بکس کو ختم کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا مگر پھر ان منصوبوں کو ہی ختم کر دیا گیا، کیونکہ بوڑھے اور سماجی مشکلات کے شکار لوگوں کے لیے کوئی اور قابلِ عمل متبادل موجود نہیں تھا۔ چیک استعمال کرنے والے زیادہ تر برطانوی شہری 65 سال سے زائد عمر کے ہیں۔

برطانیہ کے بینکنگ شعبے کی تنظیم یو کے فنانس کے مطابق یوں تو 2018 میں تمام ادائیگیوں کا صرف 0.9 فیصد ہی چیکس کے ذریعے کیا گیا تھا، مگر اس کی رقم 443 ارب پاؤنڈ (550 ارب ڈالر) کے مساوی تھی لیکن صرف گزشتہ دس سالوں کے اندر ہی برطانیہ میں کیش کروائے گئے چیکس کی تعداد میں 75 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس تعداد کے دوبارہ بڑھنے کا امکان تو نظر نہیں آتا، مگر برطانوی مالیاتی صنعت کو توقع ہے کہ 2028 میں بھی تقریباً ساڑھے 13 کروڑ ادائیگیاں چیک کے ذریعے کی جائیں گی۔ نیدرلینڈز، نمیبیا اور ڈنمارک سمیت کئی ممالک نے پہلے ہی چیکس کو ختم کر دیا ہے۔

3: کیسٹ

یہ کیسے کام کرتی ہیں؟

ایک مخصوص عمر کے لوگوں کے لیے تو ہوسکتا ہے کہ کیسٹ ٹیپ کا صرف کام کرنا ہی ایک خواب کی مانند ہو۔ قدیم زمانے کے اس فارمیٹ کو دیکھ کر مڑی ہوئی ٹیپس اور ٹوٹے ہوئے کیسز کی یاد تازہ ہوجاتی ہے مگر جو لوگ ’نئے‘ ہیں، ان کے لیے بتاتے چلیں کہ یہ ایک چھوٹا، مستطیل پلاسٹک کا ڈبہ ہوتا ہے جس کے اندر مقناطیسی پٹی کا ایک رول ہوتا ہے۔ کسی جادو کی طرح آپ کو اس پٹی پر میوزک کی دنیا کے مشہور ناموں مثلاً میڈونا، پرنس، رِک ایسٹلے وغیرہ کے گانے سنائی دیتے ہیں۔ آپ اس پر اپنی آواز بھی ریکارڈ کر سکتے تھے۔اس پلاسٹک کے ڈبے کو اپنے سونی واک مین یا اپنی گاڑی کے سٹیریو پلیئر میں فکس کر کے بٹن دبائیں، اور یہ رہا آپ کا پسندیدہ میوزک۔ بس آواز کی زبردست کوالٹی کی توقع نہ کیجیے گا۔

یہ اب تک کیوں چل رہی ہیں؟

یہ صرف چل ہی نہیں رہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مقبول بھی ہیں۔ یہ کسی چھوٹے سے انقلاب کی طرح ہے۔ برطانیہ میں ان کی فروخت ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔ برٹش فونوگرافک انڈسٹری کے مطابق ان میں سے 35 ہزار اس سال کے پہلے سات ماہ کے دوران فروخت ہوئی تھیں۔ یہ شاید بہت زیادہ تو محسوس نہ ہو (کیونکہ یہ واقعی بہت زیادہ تو نہیں) لیکن یہ لگاتار ساتواں سال ہے جب ان کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ میں بھی کہانی کچھ مختلف نہیں ہے جہاں نیلسن میوزک کے مطابق 2018 میں کیسٹس کی فروخت میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 23 فیصد کا اضافہ ہوا۔

تو اس اضافے کی وجہ کیا ہے؟

مسٹر کیسٹ کے نام سے کیسٹ فروخت کرنے والی ایک آن لائن کمپنی کے مالک کین بریسینڈن کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ یادِ ماضی کی وجہ سے ہے۔ یہ میوزک سے لطف اندوز ہونے کے مرحلے کو دھیما کر دیتا ہے۔ میری عمر کے لوگوں کو کیسٹ منتخب کرنا اور اس کے کور پر بینڈ کے نوٹس کو دیکھنا پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا استعمال اور انھیں لانا لے جانا ونائل ریکارڈز سے زیادہ آسان ہے۔ مگر صرف اپنی جوانی کے دور میں واپس جانے کے خواہشمند ہی یہ کیسٹس نہیں خریدتے۔ بریسنڈن بتاتے ہیں کہ ’یہ جاری رجحان ہے اور اس نے شاید اس وقت زور پکڑا جب ایمینیم اور دیگر بڑے آرٹسٹس نے انھیں ریلیز کرنا شروع کیا۔‘

کئی آرٹسٹس نے اپنے میوزک کو کیسٹس پر ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال جن آرٹسٹس نے سب سے زیادہ کیسٹس فروخت کیں، ان میں بلی آئلش، کائلی مینوگ اور لوئس کپالڈی شامل ہیں۔ چنانچہ ان ٹیپس میں اب بھی جان باقی ہے۔

4: تاماگوچی

یہ کیسے کام کرتے ہیں؟

یہ انڈے کی صورت کے برقی پالتو جانور ہوتے ہیں جنھیں آپ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے۔ شاید اس کا مقصد ہمیں موت اور افسوس کے جذبات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔

یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟

تاماگوچیز نے مرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے انھوں نے ترقی ہی کی ہے۔ یہ 1996 میں جاپان میں ریلیز کیے گئے تھے اور اس سے اگلے ہی سال دنیا بھر میں مقبول ہونا شروع ہوگئے۔ اپنے ابتدائی سالوں میں ان کی فروخت کی تعداد چار کروڑ تھی۔ اب بھلے فروخت میں کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی 2010 سے 2017 کے درمیان 60 لاکھ یونٹ فروخت ہوئے ہیں۔

گزشتہ سال تاماگوچی کی بالکل نئی نوع متعارف کروائی گئی تھی۔ 1990 کی سادہ سی خاکستری سکرین کو اب ایک رنگین سکرین سے بدل دیا گیا ہے۔ نیا تاماگوچی ڈیٹا کا تبادلہ کر سکتا ہے، ایک دوسرے سے شادی کر سکتا ہے اور بچے پیدا کر سکتا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔اور تاماگوچی کے مداحوں نے بھی ایک نئے دور میں قدم رکھتے ہوئے ایک آن لائن فورم کا آغاز کیا ہے جہاں وہ اس حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ یہاں تاماگوچی کے رشتے طے ہوتے ہیں، مر جانے والے تاماگوچی کی تعزیت ہوتی ہے اور تاماگوچی پر ’معقول اور پرتوجہ بحث‘ ہوتی ہے۔

5: فیکس مشینیں

یہ کیسے کام کرتے ہیں؟

اگر آپ اتنے نوجوان ہیں کہ آپ نے کبھی فیکس مشین نہیں استعمال کی، یا دیکھی تک نہیں، تو آپ کو بتائیں کہ یہ ایک بڑا سا پرنٹر ہوتا ہے جس میں سے بھاپ کے انجن جیسی آواز نکلتی ہے۔ کچھ پرانے ماڈلز کے ساتھ تو فون تک منسلک ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی طرح سٹائلش نہیں ہوتے۔

یہ کسی دستاویز کو سکین کر کے اسے ایک سگنل میں تبدیل کردیتے ہیں جو کہ چیخوں جیسی آواز کے ساتھ ٹیلیفون لائن کے ذریعے ایک اور فیکس مشین کی جانب روانہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ مشین پھر اس سگنل سے دستاویز دوبارہ بناتی ہے اور اسے پرنٹ کر دیتی ہے۔

یہ اب تک کیوں چل رہے ہیں؟

اس لیے کیونکہ کاروبار، طبی شعبہ اور سرکاری محکمے اب تک اپنی ٹیکنالوجی اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ایک مرتبہ پھر برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی مثال لے لیں۔ اسے دنیا میں فیکس مشینوں کا سب سے بڑا خریدار تصور کیا جاتا ہے۔ یہ محکمہ اس پرانی ٹیکنالوجی پر اس قدر منحصر ہے کہ گزشتہ سال حکومت نے اس محکمے پر فیکس کی خریداری پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اس کے بعد حکومت نے (ممکنہ طور پر ای میل کے ذریعے) این ایچ ایس کو ہدایت کی کہ مارچ 2020 تک ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔

دنیا میں دیگر کئی جگہوں بشمول امریکہ، جرمنی، اسرائیل اور جاپان میں فیکس مشینیں اب بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں فیکس بھیجے جاتے ہیں۔

فیکس مشین کی تاریخ لکھنے والے پروفیسر جوناتھن کوپرسمتھ کہتے ہیں کہ ’کمپیوٹر کے استعمال میں روانی نہ رکھنے والے کئی عمر رسیدہ افراد کے لیے فیکس کرنا آسان، جانا پہچانا اور سستا کام ہوسکتا ہے۔ چنانچہ بھلے آج فیکس کے ذریعے زیادہ رابطے نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی یہ موجود رہیں گے۔‘

واقعتا جاپان میں یہ مشین اب بھی کافی حد تک اپنی جگہ قائم رکھے ہوئے ہے کیونکہ وہاں ہاتھ سے لکھنے اور کاغذی کاپی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ درحقیقت گزشتہ سال جاپان کے وزیر انٹرنیٹ سکیورٹی نے اعتراف کیا کہ انھوں نے کبھی بھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا۔

یہ کام سیکھے بغیر نوکری حاصل کرنے کی عمدہ مثال ہے نا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔