کشمیر میں انسانیت تڑپ رہی ہے

عابد محمود عزام  منگل 26 نومبر 2019

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے تاحال کرفیو نافذ ہے اور اسے ایک جیل بنا دیا گیا ہے۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن کو چار ماہ ہونے کو ہیں۔ وادی کے لوگ بدستور شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ دنیا میں کہیں بدترین حالات میں بھی مذہبی آزادی نہیں چھینی جاتی، مگر مقبوضہ کشمیر میں مذہبی تہوار منانے کی بھی آزادی نہیں، جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی عاید ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ مودی سفاک کے احکامات پر کشمیر میں سفاکیت اور درندگی کی بد ترین مثال قائم کی جارہی ہے۔ دنیا بھر کی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اپنی رپورٹس میں مظلوم کشمیریوں پر بھارتی افواج کے ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں کو مسلسل بیان کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتیں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے جبر اور مظالم سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں داخل ہو کر نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتی اوربچوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ تفتیش کے نام پر اٹھائے گئے بے گناہ نوجوانوں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ کشمیری عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔

کوئی بھی کشمیری، درندہ صفت بھارتی فوج سے محفوظ نہیں ہے۔ تمام تر پابندیوں اور مظالم کے باجود کشمیری عوام آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کے بدلے میں ان پر بھارتی فوج کی براہ راست فائرنگ اور پیلٹ گنوں کے استعمال سے شہری شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔

بھارتی فوج کو کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہر طرح کے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ حال ہی میں ایک بھارتی چینل کے ٹی وی مذاکرے میں بی جے پی کے رہنما اور سابق بھارتی جنرل ایس پی سنہا نے بے حسی، بے شرمی اور اپنی ذہنی گراؤٹ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی وی شو میں کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انتقام لینے کے لیے کشمیری عورتوں کا ریپ کرنا چاہیے۔

جنرل (ر) ایس پی سنہا نے اپنی حکومت کو گھٹیا ترین، اخلاق سوز اور انسانیت سے گری ہوئی جو تجویز دی، یہی اصل میں بی جے پی کی سیاست اور حکومت کا چہرہ ہے۔ اس شیطانی چہرے کے پیچھے آر ایس ایس کا دماغ کار فرما ہے۔ آر ایس ایس سفاکانہ سوچ کی حامل ایک مجسم دہشت گرد تنظیم ہے۔ دنیا کو ان کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔

بے گناہ انسانوں کا قتل عام ، ہر قسم کی جنونیت ، سفاکیت و بربریت بھارتی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ماضی کے مقابلے میں بھارتی فورسز کے مظالم میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارتی فورسز کی تعداد سات لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے نو لاکھ کردی گئی ہے۔ ہر کشمیری گھر کے آگے مسلح بھارتی فوجی کھڑا ہے۔

5 اگست کے بعد سے وادی کا گاؤں گاؤں، قریہ قریہ عقوبت خانہ بنا ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ پر قدغن بھی بدستور موجود ہے۔ انٹرنیٹ سروس معطل اور میڈیا پابند ہے۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے اور لوگوں کو اسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔ کشمیری بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہے۔ کاروبار تباہ ہوچکے، بے روزگاری انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی اشیاء کا فقدان ہے۔ وادی میں انسانی بحران اور انسانی المیے نے بد ترین شکل اختیارکر لی ہے۔ انسانیت تڑپ رہی ہے، بلک رہی ہے۔ عالمی برادری اس بھارتی بربریت کی ساری صورتحال سے آگاہ ہے۔

کشمیر کے مسئلے نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں کے منافقانہ کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر جنوبی سوڈان یا مشرقی تیمورکا مسئلہ ہوتا تو یہ ادارے اور تنظیمیں آسمان سر پر کھڑا کر لیتیں۔ سوڈان میں جب حالات خراب ہوئے تو عالمی برادری فوراً بیدار ہوئی اور سوڈان کی تقسیم کا اعلان کر دیا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سوڈان میں آزادی مانگنے والے لوگ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔

کشمیر میں تو معاملات بہت زیادہ خراب ہیں ، کشمیر میں تو بھارت بے انتہا ظلم ڈھا رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ کشمیری بدستور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں، بلکہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

بھارت کی جانب سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ پون صدی سے جاری ہے،اب کشمیری شہریوں کو گھر سے نکلنے کی آزادی ہے، نہ احتجاج کا حق دیا جا رہا ہے۔ کسی ملک کا مسلسل عالمی معاہدوں ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور مقبوضہ علاقے کی آبادی کی مرضی کے بغیر قبضہ اس بات کی علامت ہے کہ ہٹ دھرم اور غاصب ریاستوں کو عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کا نظام اب تک فعال نہیں ہو سکا۔

عالمی فورموں، تنظیموں اور انسانی حقوق کے مختلف اداروں کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں اور حقائق سے پْر رپورٹوں کے باوجود مودی حکومت اپنی جنونیت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور وہ بدستور کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ دنیا بھر میں کشمیری عوام عالمی برادری کے سامنے چیخ چیخ کر بھارتی مظالم بے نقاب کر رہے ہیں۔

آہ و زاری کر رہے ہیں۔ عالمی میڈیا اور اخبارات کی خبریں، تصویریں اور شہ سرخیاں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، لیکن عالمی برادری اب تک نیند سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اقوام متحدہ بھی ٹس سے مس نہیںہو رہی۔ زبانی کلامی بھارت پر کشمیر میں حالات بہتر بنانے پر زور ڈالا جاتا ہے۔ عملاً اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ عالمی برادری کا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

امریکا انسانی حقوق کا چمپئین بنا ہوا ہے، لیکن کشمیری بھارت کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں اور امریکا اس ظلم کے خلاف کوئی آواز تک نہیں اٹھا رہا۔ صرف اسی لیے کہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مسلمان ہیں۔ سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری کا بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ امریکا نے اگر مسلم امہ کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنائے رکھا ، مظلوم کی حمایت کرنے کی بجائے اس کا تماشہ دیکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی تو پھر دنیا میں امن ایک ڈراؤنا خواب بن جائے گا۔

عالمی برادری ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ اس بارے اپنا کردار ادا کرے ، تاکہ کشمیریوں کی نسل کشی روک کر انھیں جینے کا حق فراہم کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں، مغربی ممالک، امریکا اور تمام مسلم ملکوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی جارحیت کے خلاف مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں عملی اقدامات اٹھائیں۔

سب سے زیادہ گلہ تو خود پاکستان کی حکومت سے ہے، جس نے پاکستان کی شہ رگ کٹنے پر عملی طور پر تاحال کچھ نہیں کیا اور مستقبل میں بھی کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چند تقریریں کرکے عوام کو مطمئن کر دیا گیا اور ان تقریروں کو ہی سب کچھ سمجھا جارہا ہے۔ امن کا دشمن بھارت اپنے تمام تر مظالم اور عالمی قوانین کی پامالی کے باوجود دنیا کے سامنے خود کو بے گناہ ثابت کر رہا ہے، جب کہ پرامن پاکستان تمام عالمی قوانین پر عمل کرتے ہوئے بھی دنیا کو بھارت کی بدمعاشیوں سے آگاہ کرکے کشمیر میں درندگی نہیں رکوا سکا ، یہ حکومت پاکستان کی ناکامی ہی تو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔