شوکت آپا

زاہدہ حنا  بدھ 27 نومبر 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

خبر آئی ہے کہ وہ 93 برس کی عمر میں رخصت ہوئیں۔ نگاہوں کے سامنے ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ تیر گیا۔ ان سے پہلی ملاقات کراچی میں ان کے بھائی خورشید علی خان کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس وقت تک وی سی آر نے انھیں پاکستان اور بہ طور خاص کراچی میں ایک جانا پہچانا نام اور چہرہ بنا دیا تھا۔

وہ ’’ امراؤ جان‘‘ کی خانم جان تھیں۔ اگر ریکھا اور اس کے مجروں نے دیکھنے والوں کے دلوں کو بے تاب و بے قرار کر دیا تھا تو شوکت اعظمی، خانم جان کے روپ میں سب ہی کے دل پر اپنا گہرا نقش چھوڑگئی تھیں۔ ان کے ست رنگے لباس ، ان کے سامنے سفید چاندنی پر رکھا ہوا پاندان ، خاص دان ، ان کا پیچوان جس کی منہال خانم جان کے ہاتھ میں ہوتی۔ ان کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ۔ کب کس نواب پر مہربان ہونا ہے اورکب کسی نودولتیے کو دھتا بتانا ہے۔ لوگوں کو سب کچھ یاد تھا۔

وہ اورکیفی اعظمی صاحب کراچی آئے تو ہفتوں ان کے دم سے شعری نشستیں رہیں اوردونوں رونق محفل رہے۔ کئی بار ان کے نیاز حاصل ہوئے۔ ان کی دلچسپ باتیں۔ مجھے 1986ء کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی۔ اور ترقی پسند ادیبوں کے پرے سارے ہندوستان سے کھنچ کر لکھنو چلے آئے تھے۔

پاکستان سے بھی کچھ ترقی پسند لکھنوگئے تھے۔ سبط حسن صاحب نے لکھنو جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں گیا تو زندہ واپس نہیں آؤں گا۔ ان کی یہ بات سن کر ہم لوگ خاموش ہوگئے پھر وہ اچانک لکھنو آپہنچے تو انھیں دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ ہم نے ایک دوسرے سے سرگوشی کی۔ ’’یہ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ لیکن ہم سبط حسن صاحب سے کچھ نہیں کہہ سکے۔ ہم نے ان کے ساتھ تھیٹر دیکھا ، پھر شوکت آپا اور اپٹا (انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن)کے دوسرے اداکاروں کا جلوس شروع ہوا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنھوں نے بد ترین دنوں میں بھی امن کا جھنڈا نیچا نہیں ہونے دیا تھا۔ مجھے اس وقت بھی یاد ہے کہ ٹرک پرکھڑی ہوئی اور نعرے لگاتی ہوئی شوکت آپا کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا اور ان کی آواز سب سے بلند تھی۔ کھیت نہیں کھلیان نہیں ، ہم ساری دنیا مانگیں گے… ہم اپنا حصہ مانگیںگے۔

اس رات جب جلوس سے نمٹ کر پہنچے تو کھانا ختم ہوچکا تھا۔ شوکت آپا نے علی سردار جعفری صاحب کی بہنوں ستارہ کو، روس سے آئی ہو اردوکی ایک اسکالر جس کا نام میں اس وقت بھول رہی ہوں اور مجھے اپنی گاڑی میں بھرا اور چوک لے گئیں۔ کہنے لگیں ’’اس وقت تو یہی کھانا ملے گا۔‘‘ اس رات اوپر مجرے ہو رہے تھے اور نیچے ہم ذوق شوق سے کھا رہے تھے۔ کہنے لگیں۔ ’’ یہ کھانا تم لوگوں کو عمر بھر یاد رہے گا۔‘‘ واقعی وہ کھانا مجھے آج تک یاد ہے۔

شوکت آپا حیدرآباد دکن کے ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے ایک مشاعرے میں کیفی اعظمی کو دیکھا وہ اپنی نظم ’’عورت‘‘ پڑھ رہے تھے۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور دونوں ہی کیوپڈ کے تیر کا شکار ہو گئے۔ گھر والوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بھلا کس کی سمجھ میں آتا ہے۔ آخر شوکت آپا کے والد نے ایک فیصلہ کیا اور انھیں لے کر بمبئی گئے تا کہ انھیں دکھا سکیں کہ کیمونسٹ کیفی کس ناداری اور بے سروسامانی کے عالم میں رہتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کیفی کی بودوباش دیکھ کر شوکت کا عشق ہوا ہوجائے گا۔ لیکن شوکت اس بد حالی کو دیکھ کر کیفی پر اور بھی فریفتہ ہوگئیں۔ کیفی غریبوں اور بدحالوں کی دنیا بدلناچاہتے تھے، شوکت نے طے کیا کہ وہ کیفی کے شانے سے شانہ ملا کر چلیں گی اور تبدیلی کے اس سفرمیں ان کے ساتھ رہیں گی۔

ان کے والد انھیں کیفی کی حالت زار دکھانے لائے تھے لیکن یہاں تو عشق کا دریا چڑھا ہوا تھا۔ انھوں نے بیٹی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ شوکت اورکیفی کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا، جس میں بمبئی کے سارے نامی گرامی کمیونسٹ شامل تھے۔ اور یوں 55 برس پر پھیلے ہوئے اس عشق کی داستان شروع ہوئی جو شوکت آپا نے ’’یاد کی رہ گزر‘‘ میں ہمیں سنائی ہے۔ مکتبہ دانیال کی حوری نورانی نے اس کتاب کو بہت سلیقے سے شایع کیا ہے۔

جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے شوکت آپا کی اس کتاب سے ایک ڈرامہ بنایا جس میں صرف ان دونوں ہی نے صداکاری کی ہے۔ اس کے 100 سے زیادہ شو ہوئے۔ لندن، دبئی، مسقط، نیویارک، نیو جرسی ، بوسٹن، ڈیٹرائٹ ، شکاگو ، ہیوسٹن، سان فرانسکو ، اٹلانٹا ، واشنگٹن ڈی سی، ٹورنٹو میں ’’کیفی اور میں‘‘ اسٹیج کیا گیا اور ہر جگہ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور اس کے خاتمے پر لوگوں نے سروقد کھڑے ہوکر شوکت آپا، شبانہ اور جاوید کو داد دی۔

شوکت آپا نے لکھا ہے کہ جب کیفی صاحب نے اپنی نظم ’’عورت‘‘ سنائی تو انھوں نے یوں محسوس کیا جیسے یہ نظم ان ہی کے لیے لکھی گئی ہے۔

تو فلاطون و ارسطو ہے تو زہرہ جبیں

تیرے قبضے میں ہے گردوں تیری ٹھوکر میں زمیں

ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں

میں بھی رکنے کا نہیں، وقت بھی رکنے کا نہیں

لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

پروفیسر قمر رئیس نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ :

’’ یاد کی رہ گزر‘‘ شوکت کیفی صاحبہ کی ایسی سوانحی دستاویز ہے جو اپنے طرز بیان کی شفاف سادگی کے علاوہ کئی دیگر منفرد اوصاف کے لیے یاد رکھی جائے گی۔ اول یہ کہ یہ خود نوشت آغاز اور انجام سے بے نیاز بیچ سے شروع ہوتی ہے۔ (جوخود زندگی کا استعارہ ہے)دوسرے یہ کہ یہ کسی ایک انسان کی سرگزشت نہیں بلکہ ایسے دو انسانوں کی رزمیہ گا تھا ہے جو پیار کی ایک زنجیر ہے۔ ایک جیسے مقدر سے، ایک نظریہ سے اور دکھی انسانیت کے نروان کی ایک عظیم تحریک سے بندھے رہے۔ تیسرے یہ کہ یہ ایسے دو فنکاروں کی توزک ہے جو بیسویں صدی کی نصف آخر کی انقلابی روشن خیالی کے فروغ میں اپنی قلم کاری اور اداکاری سے ،مقدس دیوانگی کے ساتھ وابستہ رہے۔‘‘

فلموں میں کام کرنے کے حوالے سے شوکت آپا نے لکھا ہے کہ:

اس کے بعد مظفر علی نے مجھے ’’امراؤ جان‘‘ میں خانم کا رول آفر کیا۔ میں امراؤ کی ماں کا رول کرنا چاہتی تھی لیکن سبھاشنی نے (جو اس وقت مظفرکی بیوی تھی) مجھے قائل کیا کہ خانم کا رول ہی میرے لیے صحیح ہے۔ کیونکہ امراؤ کی ماں ایک کمزور اور مظلوم کردار ہے جب کہ خانم ایک مضبوط اور با وقار عورت،  یہ رول مجھے زیادہ سجے گا۔ شکر ہے کہ میں نے سبھاشنی کی بات مان لی۔ خانم کے رول  میں میرے کام کی تعریف لوگ آج بھی کرتے ہیں ،کیفی نے فلم دیکھ کر سبھاشنی سے کہا ’’شوکت نے خانم کے رول میں جس قدر حقیقت کا رنگ بھرا ہے اگر شادی سے پہلے میں نے ان کی اداکاری کا یہ انداز دیکھا ہوتا تو ان کا شجرہ منگوا کر دیکھتا کہ آخر سلسلہ کیا ہے۔‘‘

ایک دن صبح صبح، میرا نائر فون کرکے میرے گھر جانکی کٹیر، آئی۔ کہنے لگی ’’شوکت آپا میں ایک فلم بنا رہی ہوں جس کا نام ہے ’’سلام بامبے‘‘ میں چاہتی ہوں آپ اس فلم میں کام کریں‘‘ میں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بے دلی سے پوچھا ’’کیا فلم ہے؟‘‘ اس نے تفصیل سے کہانی سنائی اور بتایا ’’ یہ فلم کماٹی پورہ کی طوائفوں کے ماحول پر بن رہی ہے۔ آپ کا رول گھر والی کا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’گھر والی کون؟‘‘ جو عورت لڑکیوں سے پیشہ کرواتی ہے اسے گھر والی کہتے ہیں۔ ’’میں چونک گئی‘‘ گھر والی کا رول۔ اس کیریکٹر کو تو میں نے آج تک دیکھا بھی نہیں‘‘ اندر سے شبانہ کی آواز آئی۔ ’’ممی ان کی پکچر ضرور کیجیے۔ یہ اچھی ڈائریکٹر ہیں‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’اس سے پہلے آپ نے کوئی فلم بنائی ہے؟‘‘ اس نے تفصیل سے بتایا ’’کیبرے ڈانسروں پر ایک ڈاکو منٹری بنائی ہے۔ اس کے کیسٹ میں آپ کو دے دوں گی۔ ضرور دیکھیے گا۔

میں نے ان کے گھروں میں جاکر شوٹنگ کی ہے۔ شوٹنگ میں بڑی دقتیں پیش آئیں۔ پولیس نے بھی کافی پریشان کیا۔ لیکن ہم پکچر بنا لے گئے۔‘‘ مجھے کچھ دلچسپی ہونے لگی ۔ میں نے پوچھا ’’آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ یہ رول میں کرسکتی ہوں؟‘‘ اس نے کہا ’’میں نے آپ کی گرم ہوا دیکھی‘‘۔ میں نے حیرت سے پوچھا ’’گرم ہوا‘‘! میں نے تو اس میں ایسا کوئی رول نہیں کیا۔‘‘ وہ ہنس دی اور کہا ’’میں نے محسوس کیا کہ آپ کیریکٹر کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اپنے آپ کو نہیں۔ میں نے پوچھا ’’مگر یہ تو بتائیے کہ میں نے جس کیریکٹر کو دیکھا تک نہیں وہ کیریکٹر کیسے کرسکتی ہوں؟‘‘ میرا نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کو اس ماحول میں لے جاؤں گی اور سب سے ملاؤں گی میں ڈیڑھ سال سے وہاں کام کررہی ہوں۔ بیس بچیس بچوں کا ورکشاپ بھی چلایا ہے۔ وہ لوگ بہت اچھے ہیں۔‘‘

’’اچھا تو کل چار بجے آپ آئیے تو میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔ دوسرے دن میں اس کے ساتھ کماٹی پورہ گئی جو بمبئی کا مشہور ریڈ لائٹ ایریا ہے۔ میری نظریں اپنے کیریکٹر کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک درخت کے نیچے وہ کیریکٹر مجھے مل گیا۔ ایک ادھیڑ عمر عورت اپنے کسی مرد دوست کے ساتھ رمی کھیل رہی تھی۔ میں غور سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر قریب بیٹھ کر اس سے بات بھی کی۔ اس کا ہاتھ جلا ہوا تھا۔ جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہی تھی۔ میںنے چاروں طرف دیکھا ساری فضا کچھ گھناؤنی سی تھی۔

ماحول اس قدر گندا تھا کہ مجھے متلی ہونے لگی۔ میں اٹھ گئی اور گھر آگئی۔ یہ رول میرے لیے چیلنجنگ تھا۔ اس لیے میں اسے کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔ چار پانچ دن مسلسل میں میرا کے ساتھ وہاں جاتی رہی۔ تب کہیں جاکر میں اپنے آپ کو پوری طرح اس کیریکٹر میں  ڈھال سکی۔ میرا نائر نے شوٹنگ کے دوران میک اپ کے لیے قریب کے ایک چھوٹے سے ہوٹل مین دو کمرے میک اپ رومز کے لیے کرائے پر لے لیے تھے۔ پہلے دن جب میں میک اپ کر کے آئی تو لوگ مجھے پہچان نہ سکے۔ میرے پہلے شاٹ ہی سے میرا خوش ہوگئی۔

’’یاد کی رہ گزر‘‘ ایسی ہی دلچسپ اور زندگی کے مشکل مرحلوں سے گزرتی ہوئی داستان ہے۔ وہ چلی گئی ہیں لیکن اپنے پیچھے روشنی کی ایک لکیر چھوڑ گئی ہیں۔ اس روشنی کو تعظیم دینے کے لیے امیتابھ بچن، ریکھا، رشی کپور اور فلمی دنیا کے بہت سے بڑے نام آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔