حکومت عدالتوں میں درپیش مشکلات سے نکل پائے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 27 نومبر 2019
کابینہ کے اجلاس کی کارروائی میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا اور وزیر قانون فروغ نسیم کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

کابینہ کے اجلاس کی کارروائی میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا اور وزیر قانون فروغ نسیم کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

 اسلام آباد:  سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔

جنرل باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان ان کی ملازمت میں تین برس کی توسیع کی منظوری پہلے ہی دے چکے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دوسرے دور ملازمت شروع ہونے سے دو روز قبل پاکستانی فوج کے اہم عہدوں پر بعض تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ اس وقت ملک کے سیاسی و سماجی،دفاعی اور سفارتی حلقوں اور میڈیامیں یہی ڈویلپمنٹ موضوع بحث ہے۔

کابینہ کے اجلاس کی کارروائی میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا اور وزیر قانون فروغ نسیم کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے صورتحال جلد واضع ہوجائیگی۔ دوسری طرف غداری کیس میں محفوظ فیصلہ سنانے سے روکنے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر بھی سماعت آج(بدھ)تک کے لئے ملتوی ہوگئی ہے جبکہ پارٹی فنڈنگ کیس بھی حتمی مرحلے میں ہے اس بارے فیصلہ بھی ہونے کو ہے۔ ایسے میںحکو مت کے خلاف لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے اپوزیشن کی 9 جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بھی جاری ہے جو تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال میں یہ اے پی سی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو لے کر پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں افواہوں کا بازار گرم تھا۔ سیاسی فرنٹ پر دیرینہ رقابتیں دور ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ سب سے زیادہ اہمیت چوہدری برادران کی غیر معمولی سیاسی سرگرمیوں کو حاصل رہی۔ اسی کو لے کر بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے شریف فیملی اور چوہدری برداران کے درمیان فاصلے کم ہونے کے دعوے بھی کئے جا رہے تھے۔ اور پھر مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے بعد اسلام آباد دھرنے کو جس خوش اسلوبی سے ختم کروانے میں چوہدری بردران خصوصی طور پر چوہدری پرویز الٰہی نے کردار ادا کیا اس نے ق لیگ کے قد و قامت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

رواں ہفتے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان،ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت دیگر قانونی فورمز پر پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس،پرویز مشرف غداری کیس ،عمران خان توہین عدالت کیس سمیت شریف خاندان ،زرداری سمیت دیگر اہم کیس بھی لگے ہوئے ہیں ایسا نہ ہو کہ مولانا کی پیشگویاں درست ثابت ہو جائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جبکہ غداری کیس فیصلہ روکنے کی درخواست پر منگل کوسماعت کے دوران عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا تھا اور کہا کہ آپ کی پٹیشن دیکھی صرف ایک متعلقہ پیرا گراف ہے، وزارت قانون سے مکمل ریکارڈ ساتھ لے کر آئیں۔

مزید سماعت آج ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت قانون و انصاف کو متعلقہ ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے اس کے علاہ سنگین غداری کیس کے لیے مجاز شکایت کنندہ اور خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے جبکہ ر ابھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی سپپریم کورٹ ی موجود ہے کیونکہ منگل کو مختصر سماعت کے بعد عدالت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ معطل کرتے ہوئے فوج کے سربراہ، وفاقی حکومت اور وزارتِ دفاع کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پیر کو جیورسٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے دائر کی گئی تھی اور منگل کو چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار ریاض حنیف راہی پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے اسے مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے از خود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کو توسیع دی جا رہی ہے لیکن ایسی توسیع کے لیے خطے کی سیکورٹی کی صورتحال کی اصطلاح مبہم ہے جبکہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ علاقائی سیکورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے، کسی ایک افسر کا نہیں اور علاقائی سکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔

عدالتِ عظمیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہیں کر سکے عدالت کے مطابق فوجی قوانین کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو وزیر اعظم نے خود آڈر پاس کر کے موجودہ آرمی چیف کو ایک سال کی توسیع دی۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اس معاملے میں آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجاز اتھارٹی ہوتا ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی اور کابینہ سے بھی اس سمری کی منظوری لی گئی۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا تو وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے اس معاملے پر کوئی رائے نہیں دی اور پچیس ارکان میں سے گیارہ اس کے حق میں تھے جبکہ چودہ ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔

انھوں نے کہا کہ کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ان کی ہاں سمجھ لیا اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کابینہ کے جن ارکان نے رائے نہیں دی وہ ووٹنگ میں شریک نہیں تھے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کے چودہ ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر مثبت جواب نہیں دیا تو کیا آپ کابینہ کے ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے۔ اب یہ کیس آگے چل کر کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو جلد سامنے آجائے گا مگر ملک کی سیاسی صورتحال پر اسکے گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی لڑائی میں اپوزیشن نے اپنے کارڈ بہت دانشمندی سے کھیلے ہیں۔

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہونا بھی ابھی باقی ہے اگر اس کیس میں کوئی ایسا بڑا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر شائد جون کی نوبت ہی نہ آئے۔ مہنگائی،بیروزگاری اور بدتر ہوتی اقتصادی صورتحال نے عوام کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ہمیں پڑوسی ملک ایران میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پھوٹنے والے ہنگاموں اور حکومت مخالف احتجاج سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

جب سے چیئرمین نیب کی طرف سے احتساب کے حوالے سے ہواوں کا رخ تبدیل ہونے کا بیان سامنے آیا ہے اس وقت سے تحریک انصاف کے حلقوں میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر تو کپتان کی ٹیم کے بعض اہم کھلاڑیوں کے نام بھی گردش کررہے ہیں۔ اسی کو لے کر اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت عارف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کی سمری پر دستخط کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔ n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔