محمد عوفی کی حکایات

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 28 نومبر 2019

محمد عوفی کی تالیف ’’جوامع الحکایات ولوامع الروایات ‘‘ فارسی زبان کی حکایات کی ایک نادر ومقبول کتاب ہے۔ اختر شیرانی نے ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی خواہش پر اس کتاب کی منتخب حکایات کا اردو میں ترجمہ کیا اور یہ 1943ء میں انجمن ترقی اردو سے شایع ہوا۔

اختر شیرانی محمد عوفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے مفصل حالات کسی کتاب اور تذکرے میں نہیں ملتے یہاں تک کہ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کب پیدا ہوئے اورکب وفات پائی۔ ان کا نام محمد اور لقب سدید الدین تھا۔ ان کے والد کا نام بھی محمد تھا۔ وہ رسول اللہؐ کے صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد میں سے تھے۔ اسی لیے عوفی کہلائے۔ ان کا وطن بخارا تھا اور یہیں انھوں نے تعلیم و تربیت پائی۔

اختر شیرانی لکھتے ہیں ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بخارا کا تعلیمی دور ختم ہونے پر عوفی نے علمی ، تعلیمی اور ادبی مذاق کی نشوونما کی خاطر، نیزکسی معقول ذریعہ معاش کی جستجو میں ماورا لنہر اور خراسان کے مختلف دیارواحصار مثلاً سمرقند، آموسی، خوارزم، مرد، نیشاپور، ہرات، سجتان اور فرہ کا سفر کیا اور ہر زمین کے علما، آئمہ، فضلا، مشائخ اور خاص کر شعرا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آئمہ سے روایت حدیث کی اجازت حاصل کی اور شعرا سے ان کا کلام سنا۔ ان سیاحتوں کے دوران میں وعظ و تذکر کا مشغلہ جاری رہا۔ اسی مشغلے کے ذریعے سے امرا و سلاطین کی خدمت میں رسائی حاصل ہوتی رہی اور انعام واکرام ملتا رہا۔ ان ہی سیاحتوں کے دوران میں ایک مرتبہ وہ شہر نوکی طرف جا رہے تھے کہ ایک جگہ ڈاکوؤں نے ان کا اسباب لوٹ لیا۔ یہاں تک کہ سواری کے گھوڑے تک سے محروم ہونا پڑا۔‘‘

اختر شیرانی لکھتے ہیں کہ خراسان سے عوفی سندھ اور ملتان کے حکمران، ناصر الدین قباچہ کے دربار میں چلے گئے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عوفی کب سندھ پہنچے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ 617ھ سے پہلے یہاں آگئے تھے۔ وہ 625ھ تک قباچہ کے ساتھ رہے۔ اسی دوران میں انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’لباب الالباب‘‘ لکھی اور دوسری کتاب ’’جوامع الحکایات‘‘ کی تالیف اور ترتیب بھی شروع کردی۔

اختر شیرانی کے مرتب کردہ مجموعے میں مختلف موضوعات پر ڈیڑھ سو کے قریب حکایات شامل ہیں۔ خدا کی ہستی پر دلیل کے عنوان سے ایک حکایت ہے۔ کسی زندیق نے حضرت جعفر صادقؓ سے پوچھا کہ ’’ دنیا کے بنانے والے کی ہستی پرکون سی دلیل ہے؟‘‘ جعفرؓ نے پوچھا، ’’کبھی کشتی پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے؟‘‘ زندیق نے جواب دیا’’ ہاں‘‘ جعفرؓ نے سوال کیا ’’ دریائی طوفان سے پالا پڑا ہے؟‘‘ زندیق نے جواب دیا’’ہاں‘ ایک دفعہ میں کشتی پر سوار تھا کہ طوفان آیا اور اس زور سے آیا کہ کشتی پارہ پارہ ہوگئی اور میں ایک تختے پر بیٹھا رہ گیا۔

لیکن تھوڑی ہی دیرکے بعد طوفان کا ایک ایسا جھونکا آیا کہ میں تختے سے جدا ہوگیا اور غوطے کھاتا ہوا ساحل پر جا پڑا۔‘‘ جعفرؓ نے کہا ’’ جس وقت توکشتی میں بیٹھا تھا اس وقت تجھے کشتی پر اعتماد تھا۔ پھر جب کشتی ٹوٹ گئی اور تو ایک تختے پر بیٹھا رہ گیا تو تجھے تختے پر اعتماد تھا۔ اب یہ بتا جب تختہ بھی تجھ سے چھوٹ گیا تب تجھے کس پر اعتماد تھا؟‘‘ زندیق خاموش رہا۔ جعفرؓ نے کہا، ’’ اس وقت ترا سہارا صرف خدا کی ذات تھی اور تجھے اسی کے فضل و رحمت پر اعتماد تھا۔‘‘

ایک حکایت ہے ’’قصائی یا رعایا‘‘۔ وہ یہ ہے کہ سمر قند کے سلطان طمغاج خان کی خدمت میں ایک مرتبہ شہرکے قصائیوں نے درخواست کی کہ گوشت کے موجودہ نرخوں میں ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا ، کام زیادہ ہے۔ محنت کے مقابلے میں آمدنی بہت کم ہے، اگر بادشاہ گوشت مہنگا کرنے کی اجازت دیدیں تو ہم نذر کے طور پر ایک ہزار دینار خزانے میں پہنچا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خزانے میں رقم پہنچائی جائے اور گوشت کے نرخ میں اضافہ کردیا جائے۔

جب قصائی ایک ہزار دینار شاہی خزانے میں داخل کر کے گوشت کا نرخ بڑھا چکے تو بادشاہ نے شہر میں منادی کرائی کہ جو شخص قصائیوں سے گوشت خریدے گا اسے سزا دی جائے گی چنانچہ لوگوں نے قصائیوں سے گوشت خریدنا بند کر دیا اور چار چار، چھ چھ آدمی مل کر بکرا خریدنے اورگوشت آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قصائیوں کی آمدن کا دروازہ بند ہوگیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ گئے۔

آخر تھک ہار کر انھوں نے ایک رقم اور خزانے میں داخل کی اور اسی پچھلے نرخ پر گوشت فروخت کرنے کی ہامی بھری تب بادشاہ نے اپنا حکم واپس لیا اور قصائیوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ کسی نے پوچھا تو طمغاج نے کہا،’’یہ اچھی بات نہ تھی کہ میں اپنی رعایا کو ایک ہزار دینار میں قصائیوں کے ساتھ بیچ دیتا۔‘‘

’’طالبعلم کی مدد۔‘‘ حکایت ہے کہ صدر صدور جہاں عبدالعزیز بن عمر بخارا کے حاکم، علم و فضل، بخشش و سخاوت، ریاست و سیاست کے لحاظ سے برہانی خاندان کے بانی تھے۔ ان کی بزرگی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ کوئی غریب طالب علم تحصیل علم کے لیے سمرقند آیا ہوا تھا۔ اس سے خیانت کا جرم سرزد ہوگیا۔ سمرقند کے سلطان نے اسے پکڑ لیا اور سزا دینی چاہی۔ چنانچہ حکم دیا گیا کہ اگرچہ اس طرح کی خیانت کی سزا قتل ہے مگر چونکہ طالب علم ہے اس لیے تیس بیدوں کی سزا دی جاتی ہے۔ صدر جہاں نے عرض کیا کہ اگر بادشاہ سلامت ہر بید کو ایک ہزار اشرفیوں میں فروخت کردیں تو خزانے میں بہت کچھ اضافہ ہوجائے گا اور غریب طالب علم کی بے عزتی بھی نہ ہوگی۔ چنانچہ آپ نے تیس ہزار اشرفیاں دے کر اس طالب علم کو سزا سے بچا لیا۔ ماورالنہر میں آج تک یہ واقعہ مشہور ہے۔

ایک حکایت ہے ’’پہرہ دار کا خواب‘‘ وہ حکایت یہ ہے کہ کرمان کے بادشاہ، ملک محمد سے اس کے خزانے کے پہرہ دار نے عرض کی کہ حضور، رات کو میں نے ایک خواب دیکھا اگر اجازت ہو تو عرض کروں۔

باشاہ نے کہا۔ ’’سناؤ‘‘

پہرہ دار نے ایک لمبا خواب سنایا۔ بادشاہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب وہ ختم کرچکا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو خزانے کی نوکری سے برطرف کر دیا جائے۔

کسی نے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ جو شخص اتنا لمبا خواب دیکھتا ہے وہ یقینا بہت زیادہ سوتا ہے۔ ایسا شخص خزانے کی حفاظت کس طرح کرسکتا ہے۔

ایک حکایت ہے ’’چار نصیحتیں‘‘ وہ یہ ہے حاتم اصم سے اس کے ایک مرید نے عرض کی، مجھے کوئی نصیحت کیجیے۔ حاتم اصم نے جواب میں کہا، چار چیزوں سے بچو۔ پہلی یہ کہ کسی ایسے شخص کو ناراض نہ کرو جسے خوش کرنے کی آیندہ کبھی ضرورت پیش آئے۔ دوسری یہ کہ اس عمارت کو مت اجاڑو جس کی تعمیر کی آیندہ احتیاج ہو۔ تیسری یہ کہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہو جس کے لیے بعد کو معذرت کرنی پڑے اور چوتھی یہ کہ دنیا کی روشنی میں کسی مسلمان کا دل نہ دکھاؤ تاکہ قبر کے اندھیرے سے تکلیف نہ اٹھاؤ۔

’’دولت اور نیکی‘‘ کے عنوان سے حکایت ہے۔ نیشا پور کا سپہ سالار ابو العباس شیخ ابو علی وقاقؒ کا بہت معتقد تھا۔ ایک مرتبہ شیخ اس کے پاس گئے تو اس نے بہت تعظیم کی اور ان کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھا۔

شیخ نے کہا، ’’ایک بات کا جواب دو گے؟‘‘ ابوالعباس نے کہا، ’’فرمائیے!‘‘

شیخ نے کہا، ’’تم مال و دولت کو بہت دوست رکھتے ہو جو یہیں رہ جائے گا اور نیک عمل کو دشمن سمجھتے ہو جو تمہارے ساتھ جائے گا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

ابوالعباس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے جواب دیا ’’بہت خوب فرمایا۔ اس ایک فقرے میں دنیا بھر کی نصیحتیں بند ہیں۔‘‘

ایک حکایت ہے ’’وزیر کی تدبیر‘‘۔ وہ یہ ہے۔ ایک دن معتصد کا وزیر ، قاسم بن عبداللہ دربار خلافت میں جا رہا تھا۔ دروازے پر پہنچا تو ایک مصاحب نے عرض کیا، آپ کی آستین پر زعفران کا دھبہ نظر آتا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ لباس پر داغ دھبہ ہونا بڑا عیب سمجھا جاتا ہے۔

وزیر کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ لوٹ کر گھر جائے اور کپڑے بدل کر آئے۔ مصاحب سے کہا، زعفران کے دھبے کو روشنائی سے سیاہ کردو۔ کیوں کہ وزیروں کے لباس پر دوات کی سیاہی کا دھبہ نظر آنا عیب کی بات نہیں۔

حاضرین اس کی دانائی پر حیران رہ گئے۔

اختر شیرانی نے جوامع الحکایات کی پہلی جلد کا ترجمہ کیا ہے اس میں مختلف موضوعات پر ایک سو چوالیس حکایات ہیں۔ فارسی میں عوفی کی کتاب کی چار جلدیں ہیں جو ایک سو ابواب پر منقسم اور دو ہزار ایک سو تیرہ حکایاتوں پر مشتمل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔