’’ہاٹ منی فلو‘‘ معیشت کے لیے مفید یا نقصان دہ؟

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 2 دسمبر 2019
سرمائے کی یہ قسم بالآخر غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ کو عدم استحکام کا شکار کر دیتی ہے، تحقیق
۔فوٹو:فائل

سرمائے کی یہ قسم بالآخر غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ کو عدم استحکام کا شکار کر دیتی ہے، تحقیق ۔فوٹو:فائل

کراچی:  ہاٹ منی فلو (hot money flow)  کی اصطلاح عام طور پر شرح سود کے فرق اور شرح مبادلہ میں متوقع ردوبدل کی بنیاد مختصر مدتی نفع کمانے کیلیے سرمائے کی ایک سے دوسرے ملک منتقلی کیلیے استعمال کی جاتی ہے۔

سرمائے کی منتقلی کا حجم میزبان ملک میں شرح سود میں اضافے کے ساتھ ہی بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں شرح سود میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پالیسی ریٹ اس وقت 13.25 فیصد ہے جو امریکا کے پالیسی ریٹ 1.75فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ’ ہاٹ منی‘ کی آمد بڑھی ہے۔ مختصر مدتی گورنمنٹ انویسٹمنٹ اور ایکوٹی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کے لیے مفید ہے یا مضر؟ پاکستان جیسے سرمائے کی قلت کا شکار ملک کے لیے ایک ارب ڈالر کی آمد نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ اس رقم کی وجہ سے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوا ہے اور اس سے فارن کرنسی مارکیٹ کے استحکام میں بھی مدد ملی ہے۔ مزیدبرآں ڈالر کی روپے میں تبدیلی کے ذریعے سرمایہ کاری معیشت پر اعتماد کی بحالی کا قابل بھروسہ اقدام ہے۔

تاہم اس سرمایہ کاری کے کچھ تاریک پہلو بھی ہیں۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ہاٹ منی کا بہاؤ عارضی ہوتا ہے اور معیشتوں کو منفی بیرونی عوامل کے لیے بہت زیادہ آسان ہدف بنادیتا ہے جو مارکیٹ پالیسی کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ سرمائے کی اس قسم نے برازیل، تھائی لینڈ، تائیوان، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

کچھ محققین کے مطابق سرمائے کی یہ قسم میزبان ملک کی غیرملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ کو انتہائی عدم استحکام سے دوچار کردیتی ہے کیوں کہ اس سرمائے کا انخلا برق رفتاری سے ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا مقامی کرنسی پر دباؤ بڑھا کر اس کی قدر گھٹا دیتا ہے۔ کئی ممالک نے ہاٹ منی کے تاریک پہلووں پر قابو پانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس سرمائے کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ معاشی استحکام حاصل کرلینے کے باوجود پاکستان کی پالیسی مارکیٹ شرح سود بلند رکھنے پر مجبور ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔