پوپ فرانسس کا انتباہ

ظہیر اختر بیدری  منگل 3 دسمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے جاپان کے شہر ناگاساکی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کی توجہ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنے جوہری ہتھیار تلف کردینے چاہئیں۔ ایٹمی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار امن کی خواہش کے آگے آہنی دیوار بنے ہوئے ہیں۔

ہتھیاروں کی دوڑکے خلاف خواہ ہم کتنا بھی بولیں وہ کم ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں کروڑوں بچے اور خاندان غیر انسانی حالت میں رہتے ہیں ، وہاں تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر پیسے خرچ کرنا اور ان کی فروخت سے نفع حاصل کرنا خدا کے قہرکو دعوت دینا ہے۔ پوپ فرانسس نے جوہری ہتھیاروں کی تلفی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں خوف اور عدم اعتماد کے ذریعے تحفظ کے جھوٹے احساس کو فروغ دے کر استحکام اور امن کو یقینی بنانے کا دفاع کیا جاتا ہے۔

انسانیت کے مکمل خاتمے کا خوف اور امن و بین الاقوامی استحکام کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ پوپ فرانسس نے انسانیت کی بقا کے لیے عالمی قوتوں کی توجہ ایک انتہائی حساس مسئلے کی طرف دلائی ہے۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ تقریباً تمام عالمی قوتیں جوہری ہتھیاروں کی حامل ہیں اور انھوں نے اپنی قوت میں اضافے کے لیے ان ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے ہیں، جن پر ہر سال اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔

جہاں ان ہتھیاروں کی تیاری پر خطیر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے وہاں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال پر بھی کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہی سرمایہ انسانوں کی فلاح پر خرچ کیا جائے توکوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں اس وقت جو بھوک اور غربت دکھائی دے رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔ یہ عالمی قوتوں کی منافقانہ پالیسی ہے کہ ایک جانب وہ انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ بلند کرتے ہیں، دنیا میں پولیو، ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں کے علاوہ بھوک اور غربت کے خاتمے کے پروگرام پیش کرتی ہیں تو دوسری طرف کمزور ممالک کے استحصال اور انھیں اپنے زیر دست رکھنے کے لیے ایٹمی سمیت دیگر خوفناک ہتھیاروں کے انبار لگا رہی ہیں۔

پوپ فرانسس نے عالمی قوتوں کی اس منافقانہ پالیسی کو بے نقاب کرتے ہوئے بالکل سچ کہا ہے کہ دنیا میں خوف اور عدم اعتماد کے ذریعے تحفظ کے جھوٹے احساس کو فروغ دے کر استحکام اور امن کو یقینی بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اگر دنیا سے غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو عالمی قوتوں کو اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرکے وہ رقم انسانیت کی فلاح پر خرچ کرنا چاہیے۔

پوپ فرانسس ایک مذہبی شخصیت ہیں، ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو جو خطرہ لاحق ہے اس کی تشویش سے ان ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کردینا چاہیے۔ یہ ایک ایماندارانہ اور پرخلوص خواہش ہے لیکن ہمارے معاشروں میں دینی رہنماؤں کی حیثیت بارہویں کھلاڑی جیسی ہے ان کے جائزاور عوام دوست مطالبے پر کسی سیاست دان کسی حکمران کی نظر بھی نہیں گئی ہوگی۔ دور حاضر سیاستدانوں کا دور ہے اور سیاستدان سیاسی مفادات کے پاؤں کا گھنگھرو ہے۔

ایٹمی ہتھیار ویسے تو بلیک میلنگ کا کام انجام دے رہے ہیں کیونکہ حکمران اور سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا مطلب کرہ ارض کی یا دنیا کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ 1945 میں جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر جو ایٹم بم امریکا نے استعمال کیے تھے وہ آج کے طاقتور ترین ایٹم بموں کے سامنے بالکل معمولی نوعیت کے تھے ان معمولی نوعیت کے ایٹم بموں سے کتنا نقصان ہوا اس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ 1945 کے مقابلے میں آج جو ایٹمی ہتھیار بنائے گئے ہیں وہ ایٹمی ہتھیار بنانے والوں کا بہت بڑا ’’کارنامہ‘‘ ہے لیکن ان حضرات پر دنیا لعنت بھیج رہی ہے۔

جدید دنیا نے زندگی کے ہر شعبے میں جو ناقابل یقین ترقی کی ہے پچاس سال پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اس ترقی کو اور ترقی کرنے والوں کو ایک معمولی قسم کا ایٹم بم سیکڑوں سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ اسے چھوڑیے اس بدنما حقیقت کی طرف آئیے کہ اربوں ڈالر خرچ کرکے جو ایٹم بم یا ایٹمی ہتھیار بنائے گئے ہیں۔ کیا اسے کوئی موجد استعمال کرسکتا ہے کہا جاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایٹمی ہتھیار کسی قیمت پر استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے تو پھر طاقت کے توازن کے فلسفے کا کیا مطلب؟

بیسویں صدی سے دنیا نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ناقابل یقین ترقی کی ہے اس کے سر پر ایٹم بم رکھ دیا گیا ہے اور کوئی بھی گدھا اگر گدھے پن کا ثبوت دے تو پھر اس ترقی اس دنیا کا کیا ہوگا؟ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اس اشرف المخلوقات نے ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ قدم قدم پر جنگوں کے آلاؤ دہشت گردی کے عذاب کھول رکھے ہیں۔ اس طبقاتی معاشرے میں جہاں آبادی کا 90 فیصد حصہ غربت کی آگ میں جل رہا ہے اور دو فیصد حصہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہا ہے۔ یہ اہتمام بھی کردیا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ ایٹمی جنگ ہو تو غریب آدمی تو اس کا ایندھن بن جائے گا البتہ ارب پتی جنٹری کے لیے ایسے ہائیڈ بنائے گئے ہیں کہ وہ ان ہائیڈز میں جاکر ایٹمی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں۔

پوپ فرانسس نے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک معقول تجویز دی کہ انسانیت کی بھلائی اور بقا کے لیے جوہری ہتھیار تلف کردیے جائیں۔ یہ جدید دور کا شیطان پوپ فرانسس کی بات کا نوٹس لے گا؟ اگر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے نجات دلانا ہو تو میڈیا میں اس کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ہوگا۔ پھر اس کے خلاف شہر شہر گاؤں گاؤں محلہ محلہ احتجاج کرنا ہوگا۔ جوہری ہتھیار بنانے والوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔