دنیا کے 80 فیصد نوجوان ورزش سے محروم

جیمز گیلاہر  جمعرات 5 دسمبر 2019
ورزش کرنے والے بچوں کے صحت مند نوجوان بننے کے امکانات زیادہ جبکہ دل کے امراض ، ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے

ورزش کرنے والے بچوں کے صحت مند نوجوان بننے کے امکانات زیادہ جبکہ دل کے امراض ، ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر پانچ میں سے چار بچے صحت مند اندازِ زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے ہیں۔ اپنی نوعیت کے ایسے پہلے جائزے میں کہا گیا ہے کہ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما اور معاشرتی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ایک گھنٹے کی ورزش نہ کرنے کا مسئلہ غریب اور امیر دونوں ممالک میں موجود ہے۔ زیرِ تحقیق 146 ممالک میں سے 142 میں لڑکے لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ ورزش کرتے ہیں۔

اس جائزے کے لیے ہر اس کام کو ورزش کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے آپ کے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہو اور آپ کے پھیپھڑوں کو زور سے سانس لینا پڑے۔ اس میں بھاگنا، سائیکلنگ، تیراکی، فٹبال اور دیگر تمام ایسی چیزیں شامل ہیں۔ ایک دن کے لیے درمیانی سے شدید ورزش کا ہدف 60 منٹ کا ہے۔ڈبلیو ایچ او کی ڈاکٹر فیونا بل کہتی ہیں ’میرے خیال میں یہ کوئی بہت مشکل ہدف نہیں ہے۔ یہ تحقیق پر مبنی ہے کہ اچھی صحت اور نشوونما کے لیے کیا درکار ہے۔‘

درمیانی اور شدید ورزش میں فرق یہ ہے کہ درمیانی نوعیت کی ورزش کرتے ہوئے آپ کسی سے بات کر سکتے ہیں جبکہ شدید ورزش کے دوران آپ کا سانس اس قدر تیز ہو گا کہ آپ کسی سے بات نہیں کر سکیں گے۔

یہ اہم کیوں ہے؟

اس ورزش کے ہدف کی اہمیت آج اور کل کے شہریوں کی صحت ہے۔ قلیل مدت میں دیکھیں تو ورزش کرنے کا مطلب ہے صحت مند دل اور پھیپھڑے، طاقتور ہڈیاں اور پٹھے، بہتر ذہنی صحت اور کم تر وزن۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈاکٹر رجینا گتھولڈ کہتی ہیں ’صحت مند بچوں کے صحت مند نوجوان بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘ اور عمر بھر میں دیکھیں تو ان کے دل کے امراض اور ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کے زیادہ سے زیادہ شواہد مل رہے ہیں کہ ورزش ذہنی نشوونما کے لیے بھی اہم ہے۔

ڈاکٹر رجینا گتھولڈ کہتی ہیں ’ان کو چیزیں سیکھنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے، ان کا معاشرتی برتاؤ بہتر ہوتا ہے اور ان کا ذہن زیادہ تیز ہوتا ہے۔‘

کیا بچے بس سست ہوگئے ہیں؟

تو یہ تحقیق ہمیں بچوں کے بارے میں بلکہ ہم سب کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ کیا ہم موقع ملتے ہی صوفے پر لیٹ جاتے ہیں؟ ڈاکٹر بل کہتی ہیں ’بچے سست نہیں ہوئے۔‘ یہ تحقیق ہمیں سب کے بارے میں کچھ بتاتی ہے نہ کہ صرف بچوں کے بارے میں۔ یہ ہماری جانب سے ورزش کو ترجیح نہ دینے کا معاملہ ہے اور یہ لگتا ہے کہ ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔‘

تو معاملہ کیا ہے؟

ورزش اتنی کم کیوں کی جا رہی ہے، اس کی کوئی ایک وجہ نہیں بتائی جا سکتی مگر کچھ باتیں عام رجحان معلوم ہوتی ہیں۔ ایک وجہ جسمانی صحت کے مقابلے میں تعلیمی کارکردگی پر توجہ ہے۔ رپورٹ کی مصنفین میں سے ایک لیئین رائلی کہتی ہیں ’اس عمر کے بچوں کو پڑھائی پر زور دینے کے لیے بہت کہا جاتا ہے۔ وہ اکثر دن کا ایک بڑا حصہ بیٹھ کر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں اسی لیے انھیں ورزش کے مواقع کم ملتے ہیں۔‘

محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیلوں کی سہولیات کے محفوظ ہونے، ان تک رسائی ہونے اور ان کی قیمت کم ہونے کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آئے ہیں۔ خطرناک سڑکوں کا مطلب ہے کہ کسی دوست کے گھر یا سکول تک سائیکل پر یا پیدل جانا اب آپشن نہیں ہے۔

’حفاظت کے حوالے سے خدشات انتہائی اہم ہیں۔‘

ڈیجیٹل پلے (ویڈیو گیمز)، اور انٹرٹینمنٹ کے فون، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر میں ہونے کی وجہ سے بھی بچوں کے پاس ورزش کے لیے وقت کم ہے۔ ڈاکٹر بل کہتی ہیں کہ انٹرٹینمنٹ تک رسائی اب گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

کیا کوئی ملک کسی سے بہتر ہے؟

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ورزش کی کمی ایک عالمی مسئلہ ہے جو کہ ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ورزش میں سب سے آگے بنگلہ دیشی بچے ہیں مگر وہاں بھی 66 فیصد بچے ایک گھنٹے کی ورزش نہیں کر رہے۔ فلپائن میں لڑکے (93 فیصد) اور جنوبی کوریا میں لڑکیاں (97 فیصد) سب سے کم ورزش کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں 75 فیصد لڑکے اور 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ہدف تک ورزش نہیں کر رہے۔

لڑکیاں کتنی پیچھے ہیں؟

اس تحقیق کے مطابق دنیا میں صرف چار ایسے ملک ہیں جہاں لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ورزش حاصل کرتی ہیں، ٹونگا، ساموئا، افغانستان اور زامبیا۔ تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ورزش نہیں کر پا رہیں اور 78 فیصد لڑکے ایسا نہیں کر پا رہے۔ امریکہ اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں دونوں صنفوں کے درمیان اس حوالے سے کافی فرق ہے۔ دونوں ممالک میں مجوزہ ورزش نہ کرنے والے لڑکوں کی شرح 64 فیصد ہے جبکہ لڑکیوں میں یہی شرح 81 فیصد ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں میں اتنا فرق کیوں؟

ایک مرتبہ پھر اس رجحان کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے اور اس کی مختلف ممالک میں مختلف وجوہات ہیں۔ ’یہاں پر کچھ ثقافتی عناصر بھی ہیں۔ کچھ ممالک میں لڑکیوں کو کھیلنے کودنے کی اجازت نہیں دی جاتی یا ان کی کھیلوں میں اتنی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔‘ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیلوں میں شرکت کی جس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے وہ لڑکوں کے لیے زیادہ دلچسپی پیدا کرتی ہے۔ اور لڑکیوں کی پسند کی سرگرمیوں کو آگے لانے کے لیے مزید محنت درکار ہو گی۔

رائلی کہتی ہیں کہ انھیں اتنی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ’زیادہ تر الگ چینجنگ رومز (کپڑے بدلنے کے کمرے) نہیں ہوتے جن سے لڑکیاں پْرسکون محسوس کرتی ہیں۔‘

کیا بہتری آرہی ہے؟

جی ہاں، کچھ حد تک۔ بچوں کی صحت سے متعلق ایک تحقیق میں سنہ 2001 سے 2016 تک ورزش کے رجحانات دیکھے گئے۔ تحقیق کے مطابق اس دوران لڑکوں میں اس کی شرح 88 فیصد سے 78 فیصد پر آ گئی جبکہ لڑکیوں میں یہ 85 فیصد پر قائم رہی۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر مارک ٹریمبلے کینیڈا میں ایسٹرن انٹاریو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بچوں کے ہسپتال سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’برقی انقلاب نے بنیادی طور پر لوگوں کے چلنے پھرنے کے طور طریقوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ ان کے گھر، رہن سہن کا طریقہ، کام، کھیل اور سفر کے انداز بدل گئے ہیں جن سے وہ گھروں میں اکیلے ہو گئے ہیں اور زیادہ تر کرسی پر بیٹھے رہتے ہیں۔ پہلے کے مقابلے میں لوگ اب سوتے کم ہیں، زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں، چلتے پھرتے نہیں، گاڑی چلانے میں مصروف ہوتے ہیں اور جسمانی مشقت سے دور ہو گئے ہیں۔‘

بچوں کی صحت کے رائل کالج کے صدر پروفیسر رسل وینر کے مطابق یہ نتائج ’تشویش ناک‘ ہیں۔ ’متحرک بچوں کی صحت اور زندگی بہتر ہوتی ہے اور وہ عام طور پر پڑھائی میں بھی اچھے ہوتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں ’ہمیں سہولیات پیدا کرنی چاہییں تاکہ بچے اور نوجوان ایک متحرک اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔ یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔