خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 2 نومبر 2013

سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند سے قبل ایک افسانہ تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’ہندوستان کو لیڈروں سے بچائو‘‘ جو کچھ اس طرح سے تھا ’’ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں۔ ہندوستان کو اس چیز سے بچائو اس چیز سے بچا ئو۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چاہیے جو اس قسم کا شور پیدا کررہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے ماہر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر ان کے دل اخلاص سے بالکل خالی ہیں۔ رات کو کسی جلسے میں گرما گرم تقریر کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنے پر تکلف بستروں میں سوتے ہیں تو ان کے دما غ بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان کی راتوں کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرا کہ ہندوستان کس مرض میں مبتلا ہے۔ دراصل وہ اپنے مرض کے علاج معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اپنے وطن کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کرسکتے، یہ لوگ جن کا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لیے نکلتے ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے۔ یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتاہے سیاست اور مذہب کو وہ لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔ جس کی نمائش سے ہمارے یہاں گدا گر عام طور پر بھیک مانگتے ہیں۔ سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے یہ نام نہاد لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جوہر وہ بات مان لینے کے عاد ی ہوتے ہیں جو اونچے سروں میں کہی جاتی ہے۔ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔

مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کرسکتیں۔ یہ لیڈر جب آنسو بہا بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطر ے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ ان لیڈروں کا ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کو خطر ے میں ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچائو جو ملک کی فضا بگا ڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے یہ نام نہاد لیڈر اپنی اپنی بغل میں ایک صندو قچی دبائے پھرتے ہیں۔ جس میں یہ لوگوں کی جیبیں کتر کر روپیہ جمع کرتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک لمبی دوڑ ہے۔ سرمائے کے پیچھے۔ ان کے ہر سانس میں آپ ایک ریاکاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کرسکتے ہیں۔ لمبے لمبے جلوس نکال کر منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لیے راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتاہے۔ یہ چند لوگ اکٹھے کرتے ہیں مگر کیا انھوں نے آج تک بیکاری کا حل پیش کیا ہے۔ یہ لوگ مذہب مذہب چلاتے ہیں مگر کیا انھوں نے خود کبھی مذہب کے احکام کی پیروی کی ہے۔ یہ لوگ جو خیرات میں دئیے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں، چندوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جو مستعار اشیا پر جیتے ہیں جن کی روح لنگڑی، دما غ اپاہج، زبان مفلو ج اور ہاتھ پیر شل ہیں۔ ملک و ملت کی رہبری کیسے کرسکتے ہیں۔

ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں جو نئے سے نیا راگ الا پتے رہیں۔ ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔ جو حضرت عمر کا سا اخلاص رکھتا ہو جن کے سینے میں سپاہیانہ جذبہ ہو۔ جو برہنہ پا اور خالی شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگا م گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان میں ان کی طرف مردانہ وار لے جائے۔ یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لیے آگے بڑھے، اسے لا ت مار کر باہر نکال دیجیے۔ حریرو پر نیاں میں لپٹے ہوئے آدمی ان کی قیادت نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی شخص ریشمی کپڑے پہن کر آپ کو غربت کا سد باب بتانے کی جرأت کر ے تو اس کو اٹھا کر وہیں پھینک دیجیے جہاں سے نکل کر وہ آپ لوگوں میں آیا تھا۔ یہ لیڈر کھٹمل ہیں جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ان کو نفرت کے ابلتے ہوئے پانی کے ذریعے باہر نکال دینا چاہیے۔

لیڈر جلسوں میں سر مائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف اس لیے کہ و ہ خود سر مایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بد تر نہیں۔ یہ چوروں کے چور ہیں۔ رہزنوں کے ر ہزن، اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتماد ی ظاہر کردیں۔ ضرورت ہے کہ پھٹی ہوئی قمیضوں والے نوجوان اٹھیں اورعزم کو خشم کو اپنی چوڑی چھاتیوں میں لے ان نام نہاد لیڈروں کو اس بلند مقام پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں جہاں یہ ہماری اجازت کے بغیر چڑھ بیٹھے ہیں۔ ان کو ہمارے ساتھ، ہم غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی حق حاصل نہیں، یاد رکھیے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خو د ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنے کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے۔ اپنے کشتی کے کھویا خود آپ بنیے۔ اپنا نفع نقصان خود آپ سوچیے اور پھر ان لیڈروں ان نام نہاد رہنمائوں کا تماشا د یکھیے کہ وہ زندگی کے وسیع سمندر میں اپنی زندگی کا وزنی جہاز کس طرح چلاتے ہیں۔

ایڈمنڈ برک کہتا ہے کہ اقوام جن کی رہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے انہیں اپنے آپ کو صدموں، آفتوں، اور خاتمے کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ اس وقت ملک کے ہر دوسرے آدمی کی یہ سوچ ہے کہ ہم مکمل تباہی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ دہشتگردی، لاقانونیت، بدامنی کی وجہ سے ہر آدمی سہما ہوا ہے۔ بے روزگار ی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ آبادی میں خو فناک حدتک اضافہ ہو رہاہے۔ جس کی طرف کوئی دھیان دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہورہا۔ ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ نفسا نفسی، بے حسی ہمارے خون میں شامل ہوچکی ہے ہم ایسی بھیڑ بن گئے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں حکمران جماعت کے وزیر فرمارہے ہیں کہ پاکستان ایتھو پیا بننے جارہاہے قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا بے نیاز و بے پروا اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں نام نہاد لیڈروں کا یہ حال ہے کہ وہ ملک اور قوم کی بجائے صرف اپنے آپ میں مست ہیں ان کا نہ تو کوئی ویژن ہے نہ کوئی فلسفہ اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے۔ نام نہاد لیڈر بونوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ان کی نااہلی کی وجہ سے مسائل جن میں تبدیل ہوگئے ہیں ظاہر ہے بونے جن کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہر طرف کھینچا تانی، ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی کوششیں، کرپشن، نااہلی کا دور دورہ ہے۔

آج ہمارے نام نہاد لیڈروں کا وہی حال ہے جو منٹو نے اپنے افسانے میں ہندوستان کے لیڈروں کا حال بیان رقم کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، بدلا تو صرف نام نہاد لیڈروں کا نصیب بدلا جب کہ قوم کا نصیب وہی کا وہی رہا۔ لیکن آنسو بہانے سے کیا فائدہ آنسو ہماری قسمت کو تو نہیں بدل سکتے۔ قوم کو ڈری سہمی نام نہاد قیادت اب نہیں چاہیے خو د غرض، نااہل، کرپٹ حکمران قوم کو اب قبول نہیں۔ قوم کو اب دلیر، ایماندار، جرأت مند، نڈر قیادت کی ضرورت ہے تقدیرخود ہی نہیں بن جاتی بلکہ اس کا انتخاب کر نا پڑتا ہے۔ خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی۔ دہشت گردی، غربت، جہالت، بیماریاں،بے روزگاری، مہنگائی، فاقے، ہماری تقدیر نہیں ہیں۔ آئیں ہم مل کر اٹھ کر جاگ کر اپنی تقدیر بدل ڈالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔