آبادی میں دگنے اضافے کے باوجود کراچی کوپانی کی فراہمی نہ بڑھ سکی

سید اشرف علی  پير 30 دسمبر 2019
ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے شہر قائد کو 1200 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے جبکہ صرف 406 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے

فوٹو: رائٹرز

ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے شہر قائد کو 1200 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے جبکہ صرف 406 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے فوٹو: رائٹرز

کراچی: آبادی میں دگنا اضافہ ہونے کے باوجود اس پورے عشرے میں شہر قائد کے لیے ایک بوند پانی کا اضافہ نہ ہوسکا۔

سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اضافی پانی کی فراہمی کے دو اہم منصوبے KIV (260 ملین گیلن یومیہ) اور 65 ملین گیلن یومیہ 3سال سے تاخیر کا شکار ہیں ، دور دور تک ان کی تکمیل کے آثار نظر نہیں آرہے، دوسری طرف دھابیجی پمپ ہاؤس کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی ابھی تک مکمل نہیں کیا جا سکا، کراچی شہر کو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے 1200 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے جبکہ صرف 406ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

واٹر بورڈ کے ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت اس دستیاب پانی سے گھریلو استعمال کے لیے 364ایم جی ڈی اور انڈسٹریز کو 42 ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے۔ واٹر بورڈ سے ملنے والے دستاویزات اور متعلقہ انجیئنرز کے مطابق کینجھر جھیل کے ذریعے واٹر بورڈ کا منظور کردہ کوٹا 650 ایم جی ڈی ہے تاہم نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے اور دھابے جی اسٹیشن میں پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے پانی کی مکمل مقدار کراچی کو نہیں مل پارہی ہے، کینجھر جھیل سے کراچی کو مجموعی طور پر یومیہ 510 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے جس میں دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کو 450 ایم جی ڈی، گھارو پمپنگ اسٹیشن کو 30 ایم جی ڈی، پاکستان اسٹیل مل کو 25 ایم جی ڈی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو 5 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

حب ڈیم سے کراچی کو یومیہ 100 ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے لیکن یہاں بھی 30 ایم جی ڈی پانی خستہ حال حب کینال کے اطراف بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے، اس طرح حب پمپنگ اسٹیشن تک صرف 70 ایم جی ڈی پانی پہنچ پاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک اربوں گیلن پانی ضائع ہو چکا ہے۔ کھلی کینالوں کے دونوں اطراف کے پشتے گذشتہ 10سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

اس عشرے میں چند سال کم بارشیں ہونے کی وجہ سے حب ڈیم خشک ہوگیا تھا اور کراچی کے لیے پانی کی سپلائی صفر ہو گئی تھی ، یہ بہترین موقع تھا کہ حب کینال کی مرمت کردی جاتی لیکن واٹر بورڈ کے نااہل افسران نے نہ تو اس وقت حب کینال کی مرمت کرنے کی زحمت گوارا کی اور نہ ہی اب مرمت کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔

کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے کراچی کو مجموعی طور پر 750ملین گیلن یومیہ پانی فراہم ہونا چاہیے تاہم واٹر بورڈ کے نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے، دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کے پمپس میں استعداد کی کمی اور حب کینال کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے کراچی کے پمپ ہاؤسز تک صرف580ایم جی ڈی پانی پہنچتا ہے۔ تاہم تباہ حال لوکل واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم میں 30فیصد پانی کے رساؤ اور چوری ہوجانے کی وجہ سے 174ایم جی ڈی پانی کراچی کو نہیں مل پاتا جس کے سبب صرف406 ایم جی ڈی پانی واٹر بورڈکے سسٹم میں باقی رہ جاتا ہے اور اسی مقدار میں کراچی کے شہریوں کو گزارا کرنا پڑرہا ہے۔

کراچی کے لیے کینجھر جھیل سے اضافی پانی کا آخری منصوبہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں سابقہ شہری حکومت نے مکمل کیا، 100ایم جی ڈی کا منصوبہ K-III سابق سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کے دور میں2004ء میں شروع ہوا اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور 2006ء میں ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اس منصوبے میں فنڈز فراہم کیے لیکن عملدرآمد منتخب بلدیاتی قیادت نے کیا، 2010ء میں شہری حکومت کا اختتام ہوا اور واٹر بورڈ کو سندھ حکومت کے کنٹرول میں دیدیا گیا جب سے واٹر بورڈ سندھ حکومت کے کنٹرول میں گیا ہے اس کی کارکردگی کا گراف مسلسل نیچے جارہا ہے۔ اس عشرے میں واٹر بورڈ نے فراہمی آب کے تین اہم ترین منصوبے شروع کیے ، دھابیجی پمپ ہائس کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ دسمبر 2016ء میں شروع کیا ، 1.6بلین روپے کی لاگت سے 6 نئے پمپس ڈھائی سال میں نصب کرنا تھے۔

تاہم متعلقہ انجیئنرز کی نااہلی کی وجہ سے یہ منصوبہ 6ماہ تاخیر کا شکار ہوا ، بلاآخر یہ منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور اگلے سال جنوری میں اس کا افتتاح متوقع ہے، منصوبے کی تکمیل سے کراچی کے لیے 40ایم جی ڈی پانی میں اضافہ ہوگا۔ واٹر بورڈ کے حکام کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اضافی پانی کا منصوبہ 65ایم جی ڈی سال 3 سے تاخیر کا شکار ہے، واٹر بورڈ انجیئنرز کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منصوبہ کا پی سی ون جب بنایا گیا تو اس کی صحیح لاگت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا اور 5.9ارب روپے کی پی سی ون بنا کر سندھ حکومت کو بھیج دی۔

، 2014ء میں سندھ حکومت نے یہ منصوبہ منظور کرلیا،2017ئمیں واٹر بورڈ نے جب تعمیرات شروع کیں تو زمینی حقائق کا پتہ چلا اور پھر نظرثانی شدہ پی سی ون بنا کر بھیجا گیا جو 11ارب روپے کا ہے، سندھ حکومت نے یہ نظرثانی شدہ پی سی ون ابھی تک منظور نہیں کیا ، رواں سال کے مالی بجٹ میں سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے صرف 50کروڑ روپے مختص کیے ہیں، اس منصوبے کو 18ماہ میں مکمل کیا جانا تھا لیکن تین سال عرصہ گزرجانے کے باوجود صرف 15فیصد کام ہوسکا ہے۔

کراچی کے لیے سب سے اہم منصوبہ KIVْ پروجیکٹ 260ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہے جو کینجھر جھیل سے کراچی تک تعمیر کیا جانا ہے، 2016ء میں اس منصوبے کا تعمیراتی کام شروع ہوا، منصوبے کے سنگ بنیاد کے موقع پر تعمیراتی لاگت 25.5ارب روپے تھی جس کیلیے وفاقی وصوبائی حکومتوں نے مساوی 50فیصد فنڈز کے اجراء کی منظوری دی ہے، منصوبہ بندی کے تحت اس منصوبے کو 2018ء میں مکمل ہونا تھا، بعدازاں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے دباؤ کی وجہ سے ڈیزائن میں تبدیلی کی جانے لگی جس کی وجہ سے لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔

حکومت سندھ نے ڈیزائن میں تبدیلی اور لاگت میں اضافہ کی اسکروٹنی کے لیے نیساک کو ٹاسک دیا جس نے دو ماہ قبل اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے، اب سندھ حکومت نے اس رپورٹ کی نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی مقرر کردی ہے جس کی رپورٹ کا انتظار ہے، KIV پروجیکٹ سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی نااہلیت کی وجہ سے متنازع بن گیا ہے اوراس پر عملدرآمد کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، محسوس یہ ہورہا ہے کہ آئندہ عشرے میں بھی کراچی کے شہریوں کو اسی طرح بدترین پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔