شام اور یمن کی تشویشناک صورتحال

ترکی اپنی سرحد کے قریب کسی بھی صورت میں کرد ریاست کے قیام کا مخالف نظر آتا ہے


Editorial December 31, 2019
ترکی اپنی سرحد کے قریب کسی بھی صورت میں کرد ریاست کے قیام کا مخالف نظر آتا ہے

NEW DELHI: امت مسلمہ باہمی نفاق کا شکار ہے، یمن اور شام کی سنگین صورتحال اس کی واضح مثال ہیں۔ ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آقار نے کہا ہے کہ ترکی شام کے شہر ادلب کی چیک پوسٹوں کو خالی نہیں کرے گا، دراصل شام میں رہنے والے کرد جاری جنگ سے عملا الگ ہیں اور سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک کا قیام چاہتے ہیں۔

ترکی اپنی سرحد کے قریب کسی بھی صورت میں کرد ریاست کے قیام کا مخالف نظر آتا ہے کیونکہ ترکی کا خیال ہے کہ شام میں کرد ریاست کے قیام سے اس کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے اور جو کرد ترکی کے اندر بڑی تعداد میں آباد ہیں وہ بھی وہاں آزادی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیں گے۔

اس طرح ترکی کے کچھ علاقے اس سے الگ ہو جائیں گے۔ترکی اس قسم کی صورت حال کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں اور وہ کردوں کی الگ ریاست کے قیام کے مطالبے کا مخالف ہے۔ دوسری طرف جرمنی نے کہا ہے کہ شام میں فوری جنگ بندی کی جائے، جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق شمال مغربی شام میں لوگوں کی صورتحال تباہ کن ہے اور جنگ کے نتیجے میں اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ امریکا، ترکی اور سعودی عرب حکومت مخالف گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں، شام میں عالمی طاقتوں کی مداخلت سے صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اور شامی عوام کے مصائب بڑھتے جارہے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے لاکھوں اموات کے علاوہ کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہوئے ہیں، جب کہ 86 ہزار افراد ایسے ہیں جن کے جسمانی اعضا ضایع ہوئے۔بے گھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ ہے جب کہ 56لاکھ دوسرے ملکوںمیں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان اعداد وشمارکے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شام میں کس وسیع پیمانے پر تباہی وبربادی کا کھیل جاری ہے۔

شام کی یہ المناک صورت حال دیکھتے ہوئے بھی کوئی ملک ایسا معاہدہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں جس سے وہاں ایک بار پھر امن قائم ہو سکے اور شامی پرسکون طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں۔اسی طرح یمن کے جنوبی شہر الضالع میں اتوارکو فوج کی گریجویشن پریڈ پر میزائل حملے کے بعد دھماکے میں نو افراد ہلاک اور 20 زخمی ہونے کی افسوسناک خبر بھی منظر عام پر آئی ہے ۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران مہمانوں کے لیے مختص مقام کو بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ یمن کی جنوبی فورسز کے میڈیا دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پریڈ کی جگہ کے قریب سے حوثی ملیشیا کے تین ارکان کو گرفتار کر نے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یمن میں مسلمان ہی مسلمان سے لڑ رہا ہے۔ سعودی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یمن سعودی مملکت کے لیے ایک وجودی خطرہ بن گیا ہے۔اس تنازع کی حقیقی جڑ، بنیاد کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور وہ سیاسی بے دخلی اور سماجی اقتصادی طور پر لوگوں کو دیوار سے لگانا ہے۔

بلاشبہ بین الاقوامی مبصرین اور تجزیہ کار یمن میں جاری جنگ کو سعودی عرب میں مداخلت یا ایک فرقہ وار تنازع کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عالمی برادری اس تنازع کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے پر مایوس ہو کر اب بیرونی کرداروں پر مسلسل اپنی توجہ مرکوز کررہی ہے لیکن یمن کے مسائل کو صرف اندرونی طور پر ہی طے کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ یمنیوں نے بہ ذات خود بھی پہلے سن دوہزار گیارہ بارہ اور تیرہ میں قومی ڈائیلاگ کانفرنس کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس ملک میں عشروں تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ عالمی برادری شام اور یمن میں جاری بحران کا حل چاہتی ہے تو وہ مثبت کردار ادا کرے ۔ تجزیاتی ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا تصفیہ جنگ سے نہیں سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ جاری تنازعات کے پائیدارحل کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھائے۔ دونوں ممالک میں جنگی جرائم عروج پر ہیں انسانیت سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ انسانی نسلوں کی بقا اور سلامتی کے لیے شام اور یمن میں امن کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

مقبول خبریں