کراچی میں ایک عشرے کے دوران ٹرانسپورٹ کا نظام نشیب و فرازکا شکاررہا

سید اشرف علی  منگل 31 دسمبر 2019
حکومتی غفلت کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد گھٹ کر صرف 4 ہزار رہ گئی
فوٹو: فائل

حکومتی غفلت کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد گھٹ کر صرف 4 ہزار رہ گئی فوٹو: فائل

کراچی: اس عشرے میں شہر کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام میں منفی و مثبت دونوں پہلوؤں سے بڑی اہم پیشرفت ہوئی ہیں۔

سرکاری سطح پر ایک بڑی بس کا اضافہ نہیں ہوا اور سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں شدید کمی آئی جن کی تعداد گھٹ کر صرف 4 ہزار رہ گئی ہے جبکہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کو  15 ہزار بڑی بسوں کی ضرورت ہے، شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے 292 روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف 79 روٹس آپریشنل ہیں، صوبائی حکومت کی غفلت کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے غریب اور مزدور پیشہ افراد بالخصوص خواتین اور طلبہ و طالبات کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔

اگرچہ یہ عشرہ کراچی کے پرانے و روایتی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم پر مزید زوال کا سبب بنا لیکن اسی عشرے میں ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کے لیے کئی اہم پیشرفت بھی ہوئی ہیں جن میں لوکل اور غیرملکی سرمایہ کاری کے تحت پہلی بار آن لائن بائیک، رکشہ،گاڑی اور چھوٹی بس سروسز کا شروع ہونا سرفہرست ہے، دوسری بڑی پیشرفت کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی داغ بیل ہے جس کے لیے 40سال سے کوششیں کی جارہی تھیں اور رواں عشرے میں بالآخر بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کے تحت دوکوریڈور پر تعمیرات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

گذشتہ سال میں سرکاری سطح پر 3 پبلک ٹرانسپورٹ اسکیموں کا منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا ، وفاقی حکومت کے ڈھائی ارب روپے کے مالی تعاون سے شہید بے نظیر بھٹو اسکیم کے تحت 4 ہزار سی این جی بسوں کا آغاز ، سندھ حکومت کے تحت 600بڑی بسوں کی لانچنگ اور نجی کمپنی کے تعاون سے ایک ہزار نئی ایئرکنڈیشنڈ بسوں کا منصوبہ شامل تھا، ان میں سے شہید بے نظیر بھٹو بس اسکیم اور 600بسوں کی اسکیم کو سندھ حکومت کی غفلت کی وجہ سے سرخ فیتہ پہنا دیا گیا جبکہ ڈائیوو کمپنی کے اشتراک سے ایک ہزار بسوں کا منصوبہ اب بھی جاری ہے۔

صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ، ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سمیت ٹرانسپورٹ تنظیموں اور دیگر اداروں کے پاس آپریشنل پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد کا صحیح ڈیٹا موجود نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق کراچی میں اس وقت صرف 4 ہزار پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہیں جن میں بڑی بسیں صرف 400اور منی بسیں و کوچز ساڑھے 3 ہزار چل رہی ہیں، شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے 292 روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف 79 روٹس آپریشنل ہیں، بڑی بسوں کے مجموعی روٹس 60 ہیں جن میں 47بند ہوچکے ہیں اور صرف 13آپریشنل ہیں۔

منی بسوں کے مجموعی روٹس 236ہیں جن میں 191بند ہوچکے ہیں اور صرف 45 پر منی بسیں چل رہی ہیں، کوچز کے مجموعی 75 روٹس ہیں جن میں 21 آپریشنل اور 54روٹس نان آپریشنل ہیں۔ ایکسپریس سروے کے مطابق اس وقت کراچی میں گنجان آبادی والے شہر میں بڑی تعداد میں 9اور 12سیٹوں والے چنگچی رکشے غیرقانونی طریقے سے آپریٹ کیے جارہے ہیں جو 15روپے سے 60روپے کرایہ وصول کررہے ہیں، حکومت سندھ غیرقانونی چنگچی رکشاؤں کو نہ تو بند کرتی ہے اور نہ ہی انھیں ریگولرائزکرتی ہے۔

حالیہ سندھ حکومت نے موٹر سائیکل چنگچی سروس کو ریگولرائز کیا ہے لیکن یہ اقدام بھی سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر کیا گیا ہے،کراچی میں ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کے لیے سندھ حکومت کے پاس کوئی بڑا پلان موجود نہیں ہے جبکہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی بڑی گنجائش موجود ہے، آبادی ڈھائی کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے،کراچی میں ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر اور کراچی سرکلر ریلوے کی احیا کی کوششیں کئی عشروں سے جاری ہیں البتہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس عشرے میں بس رپییڈ ٹرانزٹ سسٹم کے دو کوریڈور پر تعمیرات کا آغاز کردیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔