حکومت کو چیلنجز کا سامنا رہا، نئے سال سے بہتر توقعات وابستہ

ارشاد انصاری  بدھ 1 جنوری 2020
نئے مالی سال پر تبدیلی سرکار کے معاشی فرنٹ پر وہ چند تحائف ہیں جن کا سلسلہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری و ساری ہے۔

نئے مالی سال پر تبدیلی سرکار کے معاشی فرنٹ پر وہ چند تحائف ہیں جن کا سلسلہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری و ساری ہے۔

 اسلام آباد: بہت سی کامیابیوں و ناکامیوں اور معاشی و سیاسی اتار چڑھاو، تبدیلی کی صداوں کی گونج میں سال 2019 کا سورج غروب اور نئی امیدوں و امنگوں کے ساتھ نئے چیلنجز کا سورج طلوع ہوگیا ہے اور داد کے مستحق ہیں  پاکستانی جنہوں نے ختم ہوتا ہوا سال حوصلے سے برداشت کیا اور پچھلے ڈیڑھ سال کی صورتحال نے نئے سال  کی آمد سے پہلے پھر سے 2013 کے دور میں  دھکیل دیا ہے وہی سی این جی اسٹیشنز پر گاڑیوں کی طویل قطاریں، وہی مہنگائی، غربت و بے روزگاری  دیکھنے میں آرہی ہے جو 2013 میں تھی اور اب بجلی کی صورتحال بھی پھر سے خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور ان مسائل کی وجہ سے امن و امان کے مسائل بھی پھر سے سراٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔

جڑواں شہرو راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت  دیگر شہروں میں سٹریٹ کرائم بڑھنا شروع ہوگیا ہے اور یوں معلوم ہو رہا ہے نئے سال کے آغاز سے ہی نئے ولولے کے ساتھ ایک نئے امتحان سے دوچار ہونے کیلئے قوم تیار کھڑی ہے اور اس تحریر کی اشاعت تک نئے مالی سال کا سورج طلوع ہو چکا ہوگا یہ نئے سال کا سورج عوام کیلیے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت بہت سی نئی آزمائشیوں اور عوام سے مزید قربانیوں کی توقعات کی وابستگیوں کی نوید لے کر طلوع ہوگیا ہے اور گزشتہ برس وفاقی کابینہ میں ردو بدل کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور اب سال نو یعنی 2020 میں بھی وزارتوں میں تبدیلی کا امکان ہے جسکا عندیہ وزیراعظم عمران خان نومبر میں پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں  دے چکے ہیں کہ وہ جلد خیبرپختونخوا، پنجاب اور وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا اعلان کریں گے۔

سیاسی ذرائع بتاتے ہیں کہ کابینہ میں دوبار تبدیلی کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے ہیں جس کی وجہ سے اب نئے سال میں پھر کابینہ میں تبدیلی کی جائے گی اس کے ساتھ ساتھ نئے مالی سال میں معاشی، سفارتی، دفاعی اور داخلی و خارجی  محاذ پر بھی عوام کیلئے نئے چیلنجز سر اٹھانے کو تیار کھڑے ہیں جس کے آثار گزرتے مالی سال کے اختتام سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجوں میں جکڑی معیشت کے حامل ملک کی عوام کیلئے نئے سال کا آغاز بھی آئی ایم ایف سے کئے گئے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ سمیت دیگر وعدوں کی تکمیل سے ہونے جا رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ پہلا تحفہ تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت ان سطور کی اشاعت تک عوام کو مل چکا ہوگا، باقی تحائف کا سلسلہ بھی بتدریج جاری رہے گا اور پھر نئے سال کی پہلی سہہ ماہی میں ہی منی بجٹ کی بازگشت بھی آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے وعید کی  ایک کڑی ہے۔

یہ نئے مالی سال پر تبدیلی سرکار کے معاشی فرنٹ پر وہ چند تحائف ہیں جن کا سلسلہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری و ساری ہے اور ملک کی جی ڈی پی گروتھ پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد سے گر کر دو اعشاریہ چار فیصد پر آنا ، بوتل سے نکلا بے قابو مہنگائی کا جن، دس لاکھ افراد کابے روزگار ہونا، بند ہوتے کاروبار، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، امید سے ناامیدی کا سفر، معاشی زبوں حالی کی داستان، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، پچھلی حکومتوں کا حساب کتاب، بدعنوانی  و کرپشن کا دم توڑتا بیانیہ، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان، اوپر نیچے ہوتی اسٹاک مارکیٹ کی دکان، بیمار رہنما اور ضمانتیں، این آر او دینے اور نہ دینے کی صدائیں، آرمی چیف کی توسیع پر غیر متوقع عدالتی کارروائی اور پھر غیر معمولی فیصلہ، سابق آمر جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا کا تاریخی فیصلہ اور گھسیٹنے  و لاش کو لٹکانے جیسی سخت سزا یہ سب گزرے تین سو پینسٹھ دنوں کے ہی تحائف وداستانیں ہیں۔

انصاف کے دور میں عوام کے ساتھ بے انصافی، احتساب کے دور میں خود احتسابی سے دور، عوام کو رلاتے، تکلیف پہنچاتے یہ ایک سال بیت گیا مگر اس گزرے ایک سال کے تاریک پہلووں پر روشنی ڈالنا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والا کل گزرے کل سے مختلف بنایا جا سکے  ورنہ 2020 میں پاکستان میں زندگی گزارنے کے لیے عوام کو کھانے پینے میں احتیاط برتنی ہوگی اور بیماریوں سے پاک  زندگی گزارنے کیلئے  آٹا، چینی، دودھ، دال سبزیوں سمیت مہنگائی کا منہ چڑھاتی اشیائے خورونوش سے ناطہ توڑ کر کفایت شعاری اپنانا ہوگی  کیونکہ سال2019 کے اختتام پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے یہ تحفے 2020 میں اس سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائیں گے ۔2020 میں قوم کو بیمار نہ ہونے کا عہد کرنا پڑے گا اور اگر کسی وجہ سے صحت کی کوئی خرابی آن لیتی ہے تو دوائیوں کی بجائے دعاؤں اور کالے جادو پر انحصار کرنا ہوگا۔ تقریباً 500 کے قریب دوائیوں کی قیمتوں میں مزید کمر توڑ اضافہ ہو چکا ہے۔ ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور علاج کی سہولت ختم ہو گئی ہے۔اس سب کے باوجود 2020 سے قطعی مایوس نہیں ہوں۔

اْمید ہے کہ نئے سال میں معیشت بہتر ہو گی، روزگار بڑھے گا، سیاسی استحکام آئے گا۔ سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ عوام بھی اْس صفحے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور نئے سال میں امید ہے کہ اپوزیشن خواب غفلت سے بیدار ہو گی، پارلیمان اپنا حق تسلیم کرائے گی، عوامی راج کے سْہانے نعرے پر عمل ہو گا، جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے جمہوریت محفوظ رہے گی، ووٹ کو عزت دینے کے عملی اقدامات کیے جائیں گے، احتساب بلا امتیاز ہو گا، انصاف بلا روک ٹوک ملے گا جبکہ روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی اور گیس بھی سستے نرخوں دستیاب ہوں گے۔

آنے والے سال میں عوام کو خشوع و خضوع کے ساتھ خصوصی دعائیں بھی مانگنی ہوں گی تاکہ ہماری مملکت خداداد دشمنوں کی سازشوں کو روندتی ہوئی تاریخ انسانی میں یکتا مقام حاصل کرے۔ ہماری پہلی دعا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق ہونی چاہیے۔ اگرچہ وہ خود ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ اس بے کس قوم کی ضرورت بن چکے ہیں۔ وہ جب تک چاہیں موجود رہیں۔ وہ ہمیں دیکھیں اور ہم انہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے۔ ہمیں بنی گالہ میں موجود عمران خان کے تحفظ، مزید ترقی اور سیاسی تسلسل کی دعا بھی مانگنی چاہیے۔

ہمارے چمن میں اتنی مشکل سے دیدہ ور پیدا ہوا ہے۔ خدا نہ کرے کہ 2020 میں یہ مرجھا جائے۔ ہمیں بھارت کو نیست و نابود کرنے کے لیے بھی اجتماعی ہاتھ اٹھانے ہوں گے۔ 2019 میں جو اس نے کشمیر پر ظلم ڈھایا ہے اور 71 سال کی تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں وہ بدترین بد دعاؤں کا مستحق ٹھہر چکا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ مفلس کی بددعا میں کتنا اثر ہوتا ہے۔ تمام جنگی سامان ایک طرف اور بددعا دوسری طرف۔اگر ہم یہ سب کچھ کر پائیں تو 2020 کا سورج تابناک اور مکمل روشن ہو گا۔ عوام کی ایسی کی تیسی ہو گی لیکن قوم ترقی کرے گی ۔ لوگوں کے حالات بگڑیں گے لیکن ملک کی سمت بہتر ہو گی اور کچھ بھی نہ ہوا توعمران تو ہوگا اور جنرل باجوہ بھی  2020 میں ہمیں اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے رواں سال کے اختتام پر متحدہ قومی موومنٹ کو وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں تعاون پر وفاق میں وزارتوں کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی وزارتوں کی پیشکش کرکے سیاست کا ترب پتہ پھینکا ہے اگرچہ ابھی سردست ایم کیو ایم نے وفاق میں حکومت گرانے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے مگر جوابی پتہ خوب پھینکا ہے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے ایک خاموش پیغام ہے۔

اور ویسے بھی پنجاب میں چوہدریوں کی مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنا کے بعد کی سیاسی سرگرمیوں سے بھی بہت سے سوالات اٹھے ہیں جو ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور پھر خود پی ٹی آئی کے آپسی اختلافات اور پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف نیب کا شکنجہ ٹائٹ ہونے کے خوف نے بھی قیادت کیلئے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے صدارتی آردئننس کے ذریعے نیب کے دانت کھٹے کرنے کی بھی بڑی وجہ یہی مشکلات ہیں،   اس اقدام سے عوامی و سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیہ پر بڑا ڈنت پڑا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔