حکومت کو نئے سال میں پرانی غلطیوں سے بچنا ہوگا

رضوان آصف  بدھ 1 جنوری 2020
امید ہے کہ 2020 میں تحریک انصاف بطور حکومت اور بطور تنظیم ایک نئے اور کامیاب روپ میں دکھائی دے گی۔

امید ہے کہ 2020 میں تحریک انصاف بطور حکومت اور بطور تنظیم ایک نئے اور کامیاب روپ میں دکھائی دے گی۔

 لاہور: پاکستان تحریک انصاف کیلئے 2019 ء بہت مشکل سال ثابت ہوا ہے اور اس برس حکومت یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار رہی ہے جن میں سے زیادہ تر بحران خود حکومت کے غلط فیصلوں کے پیدا کردہ تھے ۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کے عدالتی معاملات بھی ملک میں بحرانی کیفیت کا باعث بنے۔ نئے پاکستان کے ’’معماروں‘‘ کا پرانا برس تو جیسا بھی گزرا لیکن اب نئے سال میں انہیں پرانی غلطیاں دہرانے سے پرہیز کرنا ہو گا ۔ نیا پاکستان بنانے کا ٹھیکہ عمران خان کو دینے والوں کو قطعی یہ امید نہیں تھی کہ ٹھیکیدار کے پاس اچھی لیبر ٹیم موجود نہیں ہے ۔

وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ اتنے برسوں سے کپتان کو معلوم ہے کہ اسے’’باری‘‘ ملے گی لہذا کپتان نے اپنی سٹار ٹیم تیار کر لی ہو گی اور جیسے ہی حکومت تشکیل پائے گی تو بنا کسی تاخیر کے نئے پاکستان کیلئے جدت انگیز پالیسیاں اور اقدامات کی بوچھاڑ ہو جائے گی لیکن افسوس کہ عوام کی طرح ’’انہیں‘‘ بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ عمران خان فنانشل کرپٹ نہیں ہیں اور ان کی حب الوطنی بھی شریف برادران اور زرداری سے قدرے زیادہ ہے لیکن ان دونوں انفرادی خوبیوں کا کیا فائدہ جب کپتان کو حکومت چلانا ہی سمجھ میں نہیں آرہا اور اس کی ٹیم میںگنتی کے چند ایک عمدہ کھلاڑیوں کو  چھوڑ کر باقی سب’’ریلو کٹے‘‘ دکھائی دے رہے ہیں ۔

عوام کو قوی امید تھی کہ 2019 ء میں حکومت روزگار، کاروبار اور صحت و تعلیم کے حوالے سے انقلابی اقدامات کرے گی لیکن حکومت نہ تو 50 لاکھ گھروں کے منصوبے کو حقیقی معنوں میں آگے بڑھا سکی اور نہ ہی صحت و تعلیم کے حوالے سے کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی دی ۔

انصاف صحت کارڈ کا اجراء ’’تبدیلی‘‘کے زمرے میں نہیں آتا ، شوکت خانم ہسپتال جیسا سٹیٹ آف دی آرٹ پراجیکٹ چلانے والے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہر عام پاکستانی یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ اب سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بھی بدلے گی اور بنا سفارش کے بہترین علاج کی سہولت بھی میسر ہوگی اور چار مریضوں کیلئے ایک بستر کی’’سزا‘‘ بھی ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ، گزشتہ سال میں وفاقی سطح پر ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور اس میں مبینہ طور پر حکومتی عناصر کی ملی بھگت کا سکینڈل سامنے آیا۔

جس کے نتیجہ میں وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کو کابینہ سے برخاست کر دیا گیا جبکہ پنجاب میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی کارکردگی عمران خان اور عثمان بزدار کیلئے ناکامی کا بوجھ بنی رہی ہے ۔ تعلیم کے شعبے میں بھی حکومت اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے، یکساں نصاب کا نعرہ فی الوقت تو صرف نعرہ ہی رہ گیا ہے۔

وفاقی کابینہ میں غیر منتخب ارکان کی شمولیت کے حوالے سے بھی 2019 ء بہت اہم رہا ۔ اس وقت عمران خان کی کابینہ میں 30 وفاقی وزیر اور وزیر مملکت شامل ہیں جبکہ 5 مشیر اور 14 معاونین خصوصی بھی کابینہ کا حصہ ہیں ، غیر منتخب ارکان کی اتنی بڑی تعداد میں شمولیت بالخصوص اہم ترین وزارتیں اور محکمے ان کے سپرد کیئے جانے پر باقی کے کابینہ ارکان، اراکین قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے رہنما خوش نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ غیر منتخب ارکان کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے سے یہ پیغام پھیل رہا ہے کہ منتخب ارکان اسمبلی میں اہم افراد موجود نہیں ہیں۔

باخبر حلقوں کو بخوبی علم ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، حفیظ شیخ، معید یوسف سمیت بعض دیگر غیر منتخب افراد کونسے’’گیٹ‘‘ کے راستے آئے ہیں ۔کابینہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 2019 ء میں مراد راس سب سے نمایاں رہے ہیں۔ حماد اظہر نے بطور وزیر مملکت ریونیو غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن حفیظ شیخ شاید تنہا ریونیو ڈویژن چلانے کو زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ اسد عمر اور اعظم سواتی کی کابینہ سے رخصتی اور واپسی بھی 2019 ء میں ہوئی ۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بہت عمدہ کام کیا ہے اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد بوگس اکاونٹ بند کر دیئے ہیں ۔

شیخ رشید تمام تر دعووں کے باوجود محکمہ ریلوے کو ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھا سکے ہیں اور اس وقت محکمہ ریلوے خواجہ سعد رفیق کو MISS کر رہا ہے ۔ زراعت کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے مقابلے سب سے زیادہ کام اسی شعبہ میں کیا ہے اور اس حوالے سے عمران خان کا سب سے بڑا ’’فخر‘‘ جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے زرعی شعبہ کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے ۔309 ارب روپے مالیت کا وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام درحقیقت ’’گیم چینجر‘‘ ہے اور اس کے کامیاب نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔

پنجاب کی بات کریں تو 2019 ء وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کیلئے کٹھن اور اذیت ناک ثابت ہوا ہے اس برس میں تین سے چار مرتبہ انہیں تبدیل کیئے جانے کا طاقتور تاثر ابھرا ، پنجاب میں ’’بیڈ گورننس‘‘ اس سال چھائی رہی ، تقرر وتبادلوں کی منڈی میں کاروبار ہوتا رہا اور آخر کار وزیرا عظم نے معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت پنجاب کی تمام انتظامی ٹیم تبدیل کردی ہے، عثمان بزدار کے قریبی رشتے داروں سمیت چہیتے افسر پنجاب بدر ہو چکے ہیں ۔

پنجاب کابینہ کے 26 سے زائد وزراء کی کارکردگی 2019 ء میں ’صفر‘‘ رہی اور اس کا وزن بھی عثمان بزدار کو اٹھانا پڑا ہے ۔ فیاض الحسن چوہان وزارت اطلاعات سے فارغ ہوئے اور چند ماہ بعد دوبارہ اسی وزارت پر آگئے ۔

پنجاب کابینہ میں تبدیلیوں کے حوالے سے بھی نشیب وفراز جاری رہے لیکن 2019 میں تو کابینہ تبدیل نہیں ہوئی اب دیکھنا ہے کہ 2020 میں کیا ہوتا ہے ۔ گزشتہ برس عبدالعلیم خان اور سبطین خان نیب کے ہاتھوں ’’بیلنسنگ احتساب‘‘ کا شکار ہوئے ، علیم خان نے 100 دن پوری استقامت کے ساتھ نیب کا سامنا کیا اور رہائی کے بعد ابھی تک وہ عمران خان کی شدید خواہش کے باوجود پنجاب کابینہ میں واپس آنے سے گریزاں ہیں جس کی بہت سی اہم وجوہات ہیں۔گزشتہ برس میں پنجاب کابینہ کے سٹار کھلاڑیوں میں مخدوم ہاشم جواں بخت، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، نعمان لنگڑیال اور حافظ ممتاز سر فہرست رہے ۔

2019ء کی آخری شب پنجاب کابینہ کے رکن ملک اسد کھوکھر کو 109دن بعد محکمہ تفویض ہوہی گیا۔ امید ہے کہ 2020 میں تحریک انصاف بطور حکومت اور بطور تنظیم ایک نئے اور کامیاب روپ میں دکھائی دے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔