- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
2019 معیشت کے لیے چیلنجز سے بھرپور سال ثابت ہوا
کراچی: 2019 کے دوران پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، بلند تاریخی خسارے کے ساتھ روپے کی قدر میں تاریخی کمی بھی اسی سال رونما ہوئی۔
شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود افراط زر میں کمی نہ آسکی۔ حکومت کی معاشی ٹیم درآمدات کو محدود کرنے میں کامیاب رہی تاہم برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔ زرمبادلہ کے تیزی سے گرتے ہوئے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا دوسری جانب دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کی روک تھام کے لیے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے کالے بادل بھی معیشت پر منڈلاتے رہے۔
سرمایہ کاری محدود رہنے کے باعث حکومت کو معاشی توازن پیدا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار بڑھانا پڑ گیا اور معیشت قرض کی دلدل میں گہرائی تک دھنستی چلی گئی۔ لگ بھگ 44 ارب ڈالر کے قرضوں کے معاہدے طے کیے گئے جن میں آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 6 ارب 20 کروڑ ڈالر، چین نے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر، ورلڈ بینک نے 2 ارب 47 کروڑ ڈالر فراہم کیے جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 11 ارب 50 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کے معاہدے کیے، فرانس نے بھی پاکستان کی معاشی مدد کے لیے 11 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے قرضے فراہم کرنے کا معاہدہ کیا جبکہ قطر نے بھی 3 ارب ڈالر کی فراہمی کے معاہدے کیے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت پاکستان نے روپے کی قدر کو مارکیٹ کی طاقتوں پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں جون 2019 میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی بلند ترین سطح 164 روپے سے تجاوز کرگئی جو گزشتہ سال 139 روپے کی سطح پر تھی غیرملکی قرضوں اور معاونت کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہونے سے سال کے اختتام پر روپے کی قدر 154 روپے کی سطح پر آ گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں سال 2019 کے د وران 3ارب 83 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا سرکاری ذخائر 3ارب 70کروڑ ڈالر اضافے سے 10 ارب 90 کروڑ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے۔
سال 2019 کے دوران عوام کو بے لگام مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا. نومبر 2019میں افراط زر کی شرح 2008 کے مقابلے میں دگنی ہو گئی اور نومبر میں افراط زر کی شرح 12.28 فیصد تک بلند ہو گئی جو ساڑھے 4 سال میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔