پیغام اقبال اور نوجوانوں کا کردار…

آج کا پاکستانی نوجوان علامہ اقبال اور ان کی فکر سے واقف ہے یا 9 نومبر کو چھٹی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔


سید حسنین رضوی November 08, 2013

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے معاشرے کو مثبت رخ سوچنے کی فکر دی ہے اور نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا ہے، انھوں نے مسلمانوں کو ایک آزاد اور خود مختار قوم بننے کی ترغیب دی، پیغام اقبال نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیاکو غلامی سے آزاد کرنے کی تدبیر بتاتا ہے۔ علامہ اقبال ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب پوری مسلمان قوم غلامی کی زندگی گزار رہی تھی جب کہ انھیں زندگی کی ساری آسائشیں حاصل تھیں، یہاں تک کہ وہ 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے اور لنکنزان یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی جب کہ جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کیا، تعلیم مکمل کرنے کے بعد علامہ اقبال واپس ہندوستان آگئے۔ ان کے پاس اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے تمام مواقعے موجود تھے لیکن انھوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے اپنے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی، انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور خود بھی عملی طور پر تشکیل پاکستان کے مشن میں شریک ہوگئے۔

پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں نوجوانوں کا کردار یقیناً بہت اہم ہے اور اقبال نے اپنے کردار سے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنے نوجوانی کے دور میں توڑا اور توڑنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ 9 نومبر 2013 یا یوم اقبال منانے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ہم آزاد قوم کے افراد ہونے کے ناتے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک متحرک ہیں اور نوجوان نسل کس حد تک سرگرم عمل ہے۔ یہی طرز فکر علامہ اقبال کا تہذیبی ورثہ ہے۔ ہم جب اپنے کردار و عمل پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے تو یقیناً قدرت ہمیں آسانیاں عطاکرے گی اور ہم مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ راہِ عمل کیا ہے؟ یہی وہ زاویہ نگاہِ ہے جو فکر اقبال کے نئے افق دیکھنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ آپ کی خدمت میں یہ سوال پھر دہراتا ہوں، وہ راہ عمل کیا ہے جس سے ہم عصر جدید کے تقاضوں کو نیا رنگ دے سکتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ آج کا پاکستانی نوجوان علامہ اقبال اور ان کی فکر سے واقف ہے یا 9 نومبر کو چھٹی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کچھ تنظیمیں علامہ اقبال پر تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں، کچھ دانشور مضامین لکھتے ہیں، جن کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے اور یہ دن گزر جاتا ہے۔ کیا پیغام اقبال ہمیں یہی درس دیتا ہے؟ ہمارے معاشرے کے بہترین نوجوانوں کی منزل دولت اور اسٹیٹس کا حصول ہے۔ اس منزل کا اخروی انجام جو بھی ہو، دنیوی انجام ایک گمنام موت اور ورثے میں چھوڑی ہوئی جائیداد؟ جب کہ اقبال کا راستہ یہ نہیں، اقبال نے نوجوانوں کو خدمت کی فکر سے آراستہ کیا ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ 'جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے' کے پیرائے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو رب نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے، یہ ہمارے لیے عظمت کی دلیل ہے، اس لیے اقبال نے کائنات کی تسخیر کا کام اپنے شاہین یعنی نوجوانوں کے سپرد کیا ہے۔

مسلم نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کریں کہ انھیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں؟ بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ اس پس منظر میں علامہ اقبال نے جب مسلمان نوجوانوں کے طرز عمل اور کردار کا جائزہ لیا، تو انھیں بے حد صدمہ ہوا، لیکن اقبال ایک باحوصلہ اور پرعزم انسان تھے۔ اپنے تعمیری مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے دو طویل تعمیری نظمیں لکھیں جو شکوہ اور جواب شکوہ کے نام سے مشہور ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وہ نظم ہے جو نوجوانان اسلام کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ اقبال نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان نوجوان مغربی تہذیب کا لباس پہن چکے تھے اور اس کردار سے دور ہوگئے تھے جو اسلام کا سرمایہ ہے۔ اس تناظر میں اقبال نے نوجوانانِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں احساس دلایا ہے کہ وہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اوراپنے کردار پر نظر ڈالیں۔

ہندوستان میں مسلسل ناکامی کے باعث مسلمانوں میں ایک ٹھہرائو آگیا تھا، مسلمانوں میں بہترین قائدین موجود تھے لیکن قوم مجتمع نہیں ہورہی تھی، قیادت نہ ہونے کے باعث قوم حقیقی تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کا شکار تھی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے شکست خوردہ قوم کے تن مردہ میں زندگی کی روح پھونک دی اور نوجوانوں کو عمل پر آمادہ کیا۔ اقبال کے افکار نے ایک عظیم مملکت کی تاسیس کی، جن کی کوششوں نے قائداعظم کو حصول پاکستان کی جدوجہد پر آمادہ کیا۔ پاکستان خواب اقبال ہے، جس کی تعبیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے۔ یقیناً پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انھیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ یقیناً ہم اس معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے، تعمیر پاکستان ہی ہماری منزل ہے، اس منزل تک رسائی ممکن ہے کیونکہ علامہ اقبال کے خواب کی سرزمین یعنی پاکستانی فضائوں میں عدل و انصاف کی بہار کی اساس فکر اقبال ہے، جو بزرگوں کے نقش قدم کی پیروی کرنا ہے۔

مقبول خبریں