بھارتی آرمی چیف کی گیدڑ بھبکیاں

بھارتی پارلیمنٹ اگر چاہے تو آزاد کشمیر بھی ہمارا ہوسکتا ہے، بھارتی آرمی چیف


Editorial January 12, 2020
بھارتی پارلیمنٹ اگر چاہے تو آزاد کشمیر بھی ہمارا ہوسکتا ہے، بھارتی آرمی چیف۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ نئے بھارتی آرمی چیف کا ایل او سی پر جارحیت سے متعلق بیان بھارتی ریاستی اداروں میں انتہا پسندی کے نظریے کی تازہ عکاسی کرتا ہے تاہم پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں، بھارت 27 فروری 2019 کو ہمارے جواب کا مزہ چکھ چکا ہے، اگر آیندہ بھی کسی قسم کی جارحیت کی توبھارت کو27 فروری سے بھی زیادہ سخت جواب ملے گا۔

بھارتی آرمی چیف کا بیان معمول کی ہرزہ سرائی ہے، وہ اپنے ملک کے اندرونی خلفشار اور حالات سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں، ہم مقبوضہ کشمیر میں فاشسٹ ذہنیت اورعلاقائی امن کے خطرے سے باخبر ہیں تاہم دنیا کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج موکنڈ نراوانے نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انھیں حکم ملا تو وہ آزادکشمیرکو پاکستان کے قبضہ سے واپس لینے کے لیے کارروائی کریں گے، بھارتی پارلیمنٹ اگر چاہے تو آزاد کشمیر بھی ہمارا ہوسکتا ہے، سارا جموں وکشمیر بھارت کا حصہ ہے۔

اس حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ میں کئی سال پہلے سے قرارداد موجود ہے ، اگر پارلیمنٹ کسی وقت یہ خواہش کرتی ہے کہ یہ حصہ بھی ہمارا ہوجائے اور ہمیں اس قسم کا کوئی حکم ملے تو آزاد کشمیر لینے کے لیے فوج لازمی طورپرکارروائی کرے گی۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آرایس ایس کے نظریات نے ایک ارب سے زائد کی آبادی کے ایٹمی ملک بھارت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، بھارت میں مسلمانوں سے سلوک سے متعلق برطانوی اخبار کی خبر ری ٹوئٹ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریات نسلی بالادستی، مسلمانوں اوراقلیتوں کے خلاف نفرت پرمبنی ہیں، جب بھی بوتل میں قید یہ جن باہر آیا تو قتل و غارت ہوئی۔

بھارت کا ہر نیا آنے والا آرمی چیف پاکستان کو جنگ بالخصوص آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دینا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے، شاید اس کے پس منظر میں حکومت اور عوام کو خوش کرنا اور اپنی برتری ثابت کرنا ہو۔ حالیہ رخصت ہونے والے بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی پاکستان بالخصوص آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیاںدینا نہ بھولتے تھے، ایڈونچر اور ہیروازم کے شوقین بپن راوت کے دور میں 27 فروری کو بھارتی طیارے آزاد کشمیر میں گھس آئے جس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور ان کے ایک طیارے کو مارا گرایا اور اس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر کے پوری دنیا کے سامنے بھارت کے حوالے کر کے اپنی برتری ثابت کی اور بھارت پر واضح کر دیا کہ پاکستان مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ ہزیمت اٹھانے کے بعد بپن راوت نے دوبارہ آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کی جرات نہ کی۔ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر جارحیت سے باز نہیں آتی اور آئے دن فائرنگ اور گولہ باری کر کے سویلین آبادی کو نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز بھی کھوئی رٹہ سیکٹر میں بھارتی فوج کی شہری آبادی پر بلااشتعال گولہ باری سے ایک شخص شہید ہو گیا، پاک فوج نے دشمن کو بھرپور جواب دیا جس پر اس کی توپیں خاموش ہو گئیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بالکل صائب کہا ہے کہ اس وقت بھارت پر انتہاپسند نظریات کی حامل راشٹریہ سیوک سنگھ کی حکومت ہے جس نے اپنے متعصبانہ اور نفرت آمیز رویے کے باعث مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

اس وقت بھارت بھر میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مظاہرے جاری اور ہزاروں افراد حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کولکتہ پہنچے تو ایئرپورٹ پر ہزاروں مشتعل مظاہرین نے احتجاج شروع کر دیا جس پر مودی کو ایئرپورٹ سے گاڑی کے بجائے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کے گھر پہنچنا پڑا۔ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا تعلق بھی آر ایس ایس سے تھا لیکن انھوں نے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کوئی متعصبانہ پالیسی نہیں اپنائی بلکہ سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ انھوں نے دوستانہ تعلقات کا آغاز کیا اور پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر لاہور تشریف لائے جس سے یہ امید بندھی کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازعہ امور باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔

بعدازاں صدر جنرل پرویز مشرف بھی واجپائی سے مذاکرات کرنے نئی دہلی گئے جہاں بھارتی حکومت نے انھیں بھرپور پروٹوکول دیا اور دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔ نریندر مودی کا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے لیکن انھوں نے متعصبانہ رویے کا انتہائی مظاہرہ کرتے ہوئے ناصرف پاکستان سے تعلقات بگاڑے بلکہ داخلی سطح پر بھی ایسے قوانین کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں بھی غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ بھارتی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ بھارت کی موجودہ متعصبانہ قیادت ہی کے اثرات ہیں کہ ہر بھارتی آرمی چیف پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اتر آتا ہے۔ نئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج موکنڈ نراوانے نے بھی بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ڈالی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ چاہے تو آزاد کشمیر بھی ہمارا ہو سکتا ہے۔

بھارتی عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان سے جنگ کی صورت میں اس کا بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹم سمیت دیگر جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی بھی کارروائی یا حملے کی صورت میں انتہائی خوفناک تباہی پھیلے گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیوں ہی پر اکتفا کرتے اور قوم کے سامنے خود کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اب تک کیے گئے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ وہ خطے میں جنگی ماحول پیدا کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے وہ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے لیکن اب انھوں نے متنازعہ شہریت قانون کا اعلان کر کے جس طرح اپنی عوام کو حکومتی پالیسیوں سے متنفر کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ آیندہ آنے والے انتخابات میں انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور اقتدار کی کرسی سے محروم ہونا پڑے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی قوتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں بلکہ امریکی صدر تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازعہ امور دونوں ممالک کے داخلی مسائل ہیں جنھیں انھیں مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔

مقبول خبریں