اہل پاکستان کو قیمتی سبق دیتا جاپان

سید عاصم محمود  اتوار 26 جنوری 2020
جاپانی قوم نے صفائی نصف ایمان کے قول کو عملی شکل میں ڈھال دیا۔ فوٹو:فائل

جاپانی قوم نے صفائی نصف ایمان کے قول کو عملی شکل میں ڈھال دیا۔ فوٹو:فائل

چند دن قبل لاہور کی مرکزی شاہراہ، مال روڈ پر محو خرام تھا۔ میری بائیک سے آگے ایک  کار جارہی تھی۔ اچانک دیکھا کہ کار سے ایک ہاتھ نکلا اور اس نے چپس کا خالی لفافہ باہر پھینک دیا۔ ظاہر ہے، کار میں بیٹھا مسافر صفائی کے اس بنیادی اصول سے بھی نابلد تھا کہ راہ چلتے اپنا کوڑا کرکٹ سڑک پر نہ پھینکو۔ یہ  غیر اخلاقی ہی نہیں غیر قانونی حرکت بھی ہے۔

افسوس کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، کراچی سے خیبر تک شاہراہوں پر سفر کرتے یا محلوں میں گھومتے پھرتے اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ کسی مرد یا عورت نے یوں لاپروائی سے گذرگاہ پر کچرا گرا دیا جیسے یہ معمولی بات ہو۔ بظاہر تعلیم یافتہ نظر آنے والی خواتین و حضرات بھی یہ غیر معقول حرکت کر ڈالتے ہیں۔ ہم وطنوں کی اس دیرینہ عادت بد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان بھر  میں سڑکوں اور محلوں میں کچرے کے انبار  نمودار ہو چکے۔کراچی  اور لاہور میں تو کوڑا کرکٹ یوں بکھرا دکھائی دیتا ہے جیسے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔

پہلی تربیت گاہ

حیرت انگیز بات یہ کہ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس قول کے برعکس عمل کرتی  ہے۔ جبکہ غیر مسلم دنیا میں اس نصیحت پر صدق دل سے عمل ہوتا ہے۔ اس سچائی کی ایک نمایاں مثال جاپانی قوم ہے۔دو سال پہلے فٹ بال عالمی کپ کے میچوں میں جاپانیوں نے صفائی ستھرائی کے اپنے جوہر دکھا کر سبھی لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ جب میچ ختم ہوتا تو جاپانی ٹیم کے ارکان ڈریسنگ روم کی مکمل صفائی کرکے اپنے ہوٹل روانہ ہوتے۔

اسی طرح جاپانی تماشائی اسٹیڈیم میں رک جاتے۔ جب وہ خالی ہوتا تو جاپانی وہاں بکھرا کوڑا جمع کرتے اور ایک جگہ اکٹھا کردیتے۔ان کے اس مثالی عمل کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔  سوال یہ ہے کہ جاپانی قوم صفائی ستھرائی پر اتنا زور کیوں دیتی ہے اور اس نے یہ پسندیدہ عادت کیونکر حاصل کی؟وجہ یہ ہے کہ جاپان کے اسکولوں میں پہلی جماعت سے ہر بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ اپنے آپ اور اپنے ماحول کو کیسے صاف رکھنا ہے۔

یہی نہیں، ہر گھر میں والدین بھی بچوں کو تربیت دیتے ہیں کہ صفائی ستھرائی کس طرح انجام دی جائے۔ نوخیز عمر ہی سے صفائی کا عادی ہوجانے کے باعث پاک صاف رہنے کی عادت ہر جاپانی کی سرشت کا حصہ بن چکی۔جاپان کے تمام اسکولوں میں رواج ہے کہ جب پڑھائی ختم ہو تو اساتذہ تمام طلبہ و طالبات کو مختلف ٹیموں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ایک  جماعتوں کی صفائی کرتی ہے۔ دوسری برآمدے اور میدان صاف کرنے پر مامور ہوتی ہے۔ تیسری غسل خانوں اور جائے حاجت کو پاک صاف کرتی ہے۔ بعض بچے تیسری ٹیم میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ مگر مجبوراً انہیں گندگی صاف کرنا پڑتی ہے کہ دیگر بچے بھی یہ ناگوار کام ذمے داری و تندہی سے انجام دیتے ہیں۔

کوڑا کہاں پھینکتے ہیں؟

میرے والد 1968ء میں نیشنل بک سینٹر کی طرف سے ایک مطالعاتی و تعلیمی دورے پر جاپان گئے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ہم پاکستانی جاپان پہنچے تو اسے اتنا زیادہ صاف ستھرا ملک پایا کہ سبھی حیران رہ گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ انیہں عوامی جگہوں پر بھی کوڑا دان بہت کم نظر آئے۔ وہ حیرت سے سوچتے کہ آخر جاپانی کوڑا کرکٹ کہاں پھینکتے ہیں؟ پھر جمعدار اور صفائی کرنے والے بھی خال خال دکھائی دیتے۔ جب  جاپان میں دو ماہ گزرے، تو مشاہدے سے  معلوم ہوا کہ تمام شہری مل جل کر گھر ہی نہیں اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ گویا جاپان میں شہریوں نے اپنے دیس کو پاک صاف رکھنا اپنا دین و ایمان بنالیا ہے۔وجہ یہی کہ گود میں آتے ہی ہر جاپانی بچے کو صفائی ستھرائی کی تعلیم و تربیت ملنے لگتی ہے۔ بڑے بوڑھے بچوں کو یہ بنیادی سبق دیتے ہیںکہ اپنے آپ اور ماحول کو گندا رکھنا بری بات ہے۔

جب بچہ اسکول میں داخل ہو، تو وہاں اسے صفائی کرنے کی عملی تربیت ملتی ہے۔ تربیت کے باعث بچے صفائی ستھرائی کی اہمیت سے آگاہ ہوتے اور اس کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ان کے لیے پھر اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا وجہ فخر و امتیاز بن جاتی ہے۔ وہ پھر گھر، اسکول یا کسی بھی جگہ کوگندا کرنا کیوں چاہیں گے جیسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا ؟پندرہ سالہ جسیکا ہیاشا ایک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ بتاتا ہے ’’اسکول کی لیٹرین  صاف کرنے سے مجھے الجھن ہوتی تھی۔ لیکن جب صفائی روزمرہ کا معمول بن گئی تو میری الجھن بھی جاتی رہی۔ا ب میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان  اپنے گھر اور ماحول کی صفائی کرے۔ وہ جن جگہوں میں رہتا بستا، اٹھتا بیٹھتا ہے، انہیں پاک صاف رکھنا اس کا فرض ہے۔‘‘

جب  اپنی آنکھیں میلی ہوں

جاپان میں عام رواج ہے کہ ہر جاپانی جوتوں کے دو جوڑے رکھتا ہے۔ ایک جوتے وہ جو باہر چلتے پھرتے پہنے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو گھر یا دفتر کے اندر استعمال ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب کوئی الیکٹریشن یا پلمبر کام کرنے کسی کے گھر  جائے، تو وہ اپنے جوتے ڈیوڑھی میں اتار دیتا ہے۔ وہ پھر موزے یا دی گئی چپل پہنے گھر میں گھومتا پھرتا ہے۔غرض جاپان میں ابتدائی عمر سے شہریوں کو صفائی ستھرائی کا شعور دینے سے نہایت مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ بچے جوں جوں بالغ ہوں، تو ان میں صفائی کا شعور گھر و اسکول سے نکل کر محلے، شہر حتیٰ کہ پورے ملک کا احاطہ کرلیتا ہے۔ جاپانی دانشور، ناکا سونے شاخی کہتی ہیں ’’ہم جاپانی اس بارے میں بہت حساس ہیں کہ دوسرے ہمارے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ دوسرے لوگ ہمیں برا بھلا کہیں اور یہ کہ کیسے جاہل ہیں جنھیں صفائی ستھرائی کی  تعلیم و تربیت ہی نہیں ملی۔‘‘

پاکستان میں کوئی عوامی تقریب منعقد ہو یا میلہ لگے، تو اس کے خاتمے پر کوڑا کرکٹ اتنا زیادہ بکھرا دکھائی دیتا ہے کہ الامان الحفیظ! لگتا ہے کہ وہاں انسان نہیں جانور جمع تھے۔ مگر جاپان میں ایسا دلخراش منظر روح کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ وجہ یہ ہے کہ چھوٹی سی بھی عوامی محفل سجے، تو ہر شہری اپنا کچرا اپنے پاس رکھتا ہے۔ پھر جب موقع ملے، تو ڈسٹ بین میں پھینک دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ مونگ پھلی کھائی تو چھلکے وہیں زمین پر پھیک دیئے۔ مالٹے کھائے تو بیجوں سے گھاس پر چاند ماری کی جارہی ہے۔ ایسے مضحکہ خیز منظر وطن عزیز ہی میں چشم براں ہوتے ہیں۔جاپان میں موسیقی کا پروگرام ہو یا اسٹیڈیم میں میچ ، تمام لوگوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ایش ٹرے ساتھ لائیں۔ نیز ایسی جگہ ہرگز سگریٹ نہ پئیں جہاں دھواں دوسروں کے لیے پریشان کن بن جائے۔

کہتے ہیں، دنیا کو تب ناپاک اور گندا مت کہو جب تمہاری اپنی آنکھوں کے شیشے میلے ہوں۔ تمام جاپانی اس سچائی سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لیے وہ عمل صفائی کو روزمرہ کا معمول بناچکے۔ آپ صبح سویرے جاپانی شہروں کی سڑکوں کا چکر لگائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ دکانوں کے مالک اور دفاتر کے کارکن اپنی جگہیں خود صاف کررہے ہیں۔ اسی طرح ہر محلے میں مہینے میں ایک بار تمام بچے مل جل کر ذوق و شوق سے گلیوں کی صفائی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ  کہ گلیاں پہلے ہی صفاف ستھری ہوتی ہیں پھر بھی انھیں بڑے جذبے سے چمکایا دمکایا جاتا ہے۔ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ بچوں میں صفائی کا جوش و جذبہ اور رجحان پیدا ہوجائے۔

کسی کو تکلیف نہ پہنچے

حد یہ ہے کہ جاپانی بینکوں کے اے ٹی ایم سے کرنسی نوٹ اور سکے صاف ستھری حالت میں اور کڑکڑاتے ہوئے برآمد ہوتے ہیں۔ کرنسی نوٹ اورسکے روزانہ کئی ہاتھوں سے گزرنے کے باعث گندے ہوجاتے ہیں۔ جاپانیوں نے انہیں صاف ستھرا رکھنے کا بھی انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ دکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسیوں اور دیگر عوامی مقامات پر ایک چھوٹی سی ٹرے رکھی ہوئی ہے۔ نوٹ یا سکے دینے والا کرنسی ٹرے میں رکھتا اور لینے والا اسے اٹھا لیتا ہے۔ غیر مرئی جراثیم اور وائرس بھی گندگی و بیماری پھیلاتے ہیں۔ لہٰذا جب کسی جاپانی کو نزلہ، زکام یا کھانسی تو وہ منہ پر ماسک پہنتا ہے تاکہ اس کا مرض دوسرے لوگوں تک منتقل نہ ہو۔ گویا جاپانی یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ ایک آفاقی و اعلیٰ نظریہ ہے۔ہمارے ہاں تو دوسروں  کی موجودگی سے بے خبر ہو کر بلغم راہ پر پھینکنامعمول بن چکا۔

اس نیک عمل کی بنیاد دراصل قدیم جاپانی مذہب، شنتومت کے ایک نظریے میں پوشیدہ ہے۔ شنتو کے معنی ہیں ’’دیوتاؤں کا طریق کار‘‘۔ اس مذہب کا ایک بنیادی نظریہ ’’کیگیر‘‘ (Kegare) کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے ناپاکی ۔اس نظریے کی رو سے اگر کوئی انسان ناپاک ہوجائے، تو پھر وہ اپنے آپ ہی نہیں معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ بن جاتا ہے۔

اسی لیے ضروری ہے کہ ہر پیروکار پاک صاف رہے۔ یوں پورا معاشرہ بھی صاف ستھرا، صحت مند اور توانا رہے گا۔گویا اسلام کی طرح شنتومت کے مطابق بھی پیروکاروں کا صاف ستھرا رہنا مذہبی اصول بلکہ ایمان کا حصّہ ہے۔جاپان میں بدھ مت کی ایک قسم’’زین‘‘( Japanese Zen)کے پیروکار بھی بہ کثرت موجود ہیں۔اس مذہب میں بھی معمول کے کام مثلاً صفائی ستھرائی کرنا اور کھانا پکانا عبادت کے مانند روحانی عمل سمجھے جاتے ہیں۔گویا کوئی پیروکار انھیں انجام دے تو وہ ایک طرح سے عبادت کرتا ہے۔آپ نے شاید نوٹ کیا ہو ،جاپان میں کھانے پینے حتی کہ چائے کے وقت بہت اہتمام ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ جاپانی جائے طعام پر مٹی کا ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کرتے۔جاپان میں مشہور ہے کہ کمرا طعام میں معمولی سا کچرا بھی پایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اہل خانہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں خام اور بے پرواہ ہیں۔

 اچھے کام کرنا  مشکل نہیں

ہمارے ہاں بھی یہ رواج ہے، جب کوئی خدانخواستہ کسی چھوت کی بیماری کا نشانہ بن جائے تو مریض یا اس کے عزیز اقارب اہتمام کرتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ رہے۔مدعایہ ہے کہ اس کی بیماری سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں اور انھیں نقصان نہ پہنچ سکے۔جاپان میںنظریہ ’’کیگیر‘‘ (Kegare)کے باعث یہ طرز ِفکر ہر شعبہ ہائے زندگی میں راسخ ہو چکا۔یہی وجہ ہے،ہر جاپانی اپنا کوڑا خود اٹھاتا اور اپنے ماحول کو حتی الوسع صاف ستھرا رکھتا ہے۔اس عمل کے پس پشت یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ انسان اپنی کسی حرکت سے دوسرے انسانوں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ہم مسلمان رب ِتعالی کے حضور جانے سے قبل وضو کرتے ہیں۔اسی طرح جاپانی بھی اپنے عبادت خانے میں داخل ہونے سے پہلے ہاتھ اور منہ پانی سے دھوتے ہیں۔کئی جاپانی کوئی نئی شے مثلاً گاڑی خریدیں تو وہ اسے پاک ومنزہ کرانے  راہب کے پاس جاتے ہیں۔راہب بڑے سے پَر کے ذریعے گاڑی کو چاروں طرف سے چھو کر اسے پاک صاف کر دیتا ہے۔نیا گھر خرید کر بھی یہی عمل کیا جاتا ہے۔

جاپان میں کوڑے کرکٹ کے سلسلے میں ایک اچھوتا اور مفید رواج جنم لے چکا۔ہم پاکستانی تو گھر یا دفتر کا سارا کچرا ایک شاپر میں جمع کر تے ہیں چاہے وہ جیسا بھی ہو۔جاپانی مگر کوڑے کو دس مختلف اقسام میں تقسیم کر کے ہر قسم الگ شاپر میں رکھتے ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا ایک شاپر میں جاتی ہیں۔پلاسٹک کی ردّی چیزیں وہ دوسرے شاپر میں  رکھتے ہیں۔کاغذ کا کوڑا تیسرے شاپر میںجاتا ہے۔غرض جاپانی مختلف نوعیت کا کوڑا علیحدہ تھیلیوں میں ڈالتے ہیں۔اس طرح ہمہ اقسام کا کوڑا مل جل کر ایک کریہہ المنظر ملغوبہ نہیں بن پاتا۔اس عمدہ عادت کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ پلاسٹک،کاغذ،دھاتوں اور دیگر کوڑے کو قابل استعمال بنا لیا جاتا ہے۔گویا جاپانی کچرا بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ۔انھوں نے اسے بھی ری سائیکل کرنے کا سودمند گُر سیکھ لیا۔

مزے کی بات یہ کہ جو غیرملکی جاپان میں قیام پذیر ہو جائے ،وہ چند ماہ میں جاپانیوں کے طورطریقے سیکھ جاتا ہے۔وہ جھک کر،عاجزی سے شکریہ ادا کرتا ہے۔دوسروں کے منہ پر نہیں چھینکتا اور نہ اپنا کوڑا لاوارث  چھوڑتا ہے۔یوں اس کی جسمانی وروحانی صحت بہتر ہوتی ہے۔جاپان پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ نیکی  پھیلانا اور اچھے کام کرنا چنداں مشکل نہیں،بس اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے اور جسے جاپانی قوم فخر وانبساط سے اپنا چکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔