دشمن کون؟ دوست کون؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 29 جنوری 2020
barq@email.com

[email protected]

وہ ایک ہندی مشہور و معروف فقرہ ہے کہ ’’سب مایا ہے‘‘۔ آدمی ہے کہ چھایا ہے۔ گیا ہے یا آیا ہے جو بھی دیکھا یا دکھایا ہے سب مایا ہے۔ اور اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ انسان خود ہے باقی کچھ بھی نہیں، اگر اپنا سب سے بڑا دوست ہے تو یہ بھی ’’آدمی‘‘ خود ہے اور اگر سب سے بڑا دشمن ہے تو وہ بھی یہ خود ہے۔

اگر جنت ہے تو وہ بھی یہ خود ہے اور اگر دوزخ ہے تو وہ بھی یہ خود ہی ہے۔ اگر فرشتہ ہے تو وہ بھی یہ خود ہے اور اگر شیطان ہے تو وہ بھی یہ خود ہے۔ مگر اس کی یہ بری عادت بھی صرف اس کی اپنی ہے کیونکہ دوسری کسی بھی مخلوق میں یہ عادت نہیں کہ الزام ہمیشہ دوسروں پر دھرتا ہے۔

شیطان پر، قسمت پر، تقدیر پر، دنیا پر دنیا کی ہر چیز پر الزام دھرنا بلکہ اپنی غلطیاں کوتاہیاں، کمزوریاں اور برائیاں دوسروں پر ڈالنا اس کی جدی پشتی عادت ہے اور اچھائیاں چاہے دوسروں کی ہوں ان کو اپنا کارنامہ بتانا اور بنانا اسے خوب آتا ہے بلکہ یہی وہ واحدکام ہے جو اسے ’’آتا‘‘ ہے۔

اب ذرا اس کی تاریخ اور تاریخ میں اس کی سرگرمیوں پرنظرڈالیے، اگر سکندر آرام سے رہتا اور اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی سلطنت  شیریں محل اور عیش و آرام پر اکتفاکرتا تو آرام اور زندگی کے سارے پھل سمیٹتے ہوئے شاید اسی سال تک جیتا لیکن اس نے خود ہی سب کچھ تیاگ کر، اپنے ہاتھوںیہ مصیبتیں اپنے گلے ڈال لیں۔ یہاں وہاں دوڑتا لڑتا اور خوار وبے قرار ہو کر پھرتا رہا اور آخرکار تینتیس سال کی ناکام و نامراد زندگی گزار کر مرا۔ وطن سے دور، اپنوں سے دور بلکہ اپنے آپ سے بھی دور۔ دفع ہو گیا۔ اور کیا کیا زمین فتح کی، انسان مارے، حکومتیں بگاڑیں اور بنائیں۔

صرف نام وہ بھی نیک نام کم اور بدنام زیادہ چھوڑا اور بس۔ وہ سب کچھ جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا، فتح کرنا چاہتا تھا، قبضہ کرنا چاہتا  تھا۔ اسی طرح ویسا ہی موجود ہے۔ لیکن وہ خود ان پر نثار ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ اسی طرح اور بھی ہزاروں لاکھوں تھے اور ہیں جو بزعم خویش ’’فتح‘‘ کر رہے ہیں لیکن اصل میں مفتوح ہو جاتے ہیں۔ گزرے زمانوں کو بھول جایئے، تاریخ کو بھی تاریک کر ڈالیے اور جغرافیے پر بھی مافیے چھوڑ دیجیے۔ آج کی، سامنے کی تازہ ترین اور بر سر زمین بات کرتے ہیں۔ ایک شخص جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا تھا۔

ریاستوں کے بادشا گر اور سیاستوں کے کسب گر سر شاہنواز کا اکلوتا بیٹا تھا۔ خدا کا دیا، باپ کا کمایا اور عوام سے چھینا ہوا سب کچھ اسی کے پاس تھا۔ پڑھا لکھا وکیل بھی تھا، اگر چاہتایا اندر کا دشمن اسے نہ اکساتا تو عیش و آرام اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرپور زندگی گزار سکتا تھا۔ نہ کوئی غم نہ خزن نہ ملال نہ دربدر ہو کر گلیوں کوچوں میں ووٹ کے پیچھے خوار ہونا پڑتا۔ نہ برسر دار ہونا پڑتا نہ بھرے بھلے کا سزاوار ہوتا۔ نہ شب و روز بیدار و ناقرار ہوتا، ایک خوشیوں سے بھرپور آرام و سکون کی زندگی گزار سکتا تھا۔ نہ اسے باہر کے دوست یا دشمن نے اسے مجبور کیا تھا نہ ورغلایا تھا نہ اکسایا تھا۔ بلکہ خود اپنے اندر کے دوست نما دشمن نے دوڑا دوڑا کر بصد سامان رسوائی سر بازار اور بے وقت مار ڈالا۔ اگر وہ خود ’’اس طرح‘‘ نہ کرتا تو کوئی اس کے ساتھ اس طرح کیوں کرتا۔ کسی کی مجال تھی جو لاڑکانہ جا کر اسے انگلی بھی لگاتا لیکن جب خود اس نے آپ کو کوئے ملامت میں ڈال لیا۔ تو پھر تو وہی ہونا تھا جو کوئے ملامت میں ہوتا ہے۔

بسان نقش پائے رہرواں کوئے ملامت میں

نہیں ہلنے کی طاقت اس گھڑی لاچار بیٹھے ہیں

پھر اس کی وہ بیٹی جو ہر لحاظ سے ایک شہزادی تھی ۔ معصوم، پھول کی طرح خوبصورت، خوابوں کی شہزادی کی طرح لاثانی بے مثل و بے مثال و بے نظیر۔ جو خود تو ’’حوا کی بیٹی‘‘ ہونے کے ناتے بہرحال ایک مجبور عورت تھی لیکن اپنے باپ نے اپنی ماں نے اپنے خاندان نے اور پھر خاص طور پر اس کے اندر کی پیدا کی گئی ’’انا‘‘نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پہلے باپ نے اسے اس راستے پر چلایا۔ جس پر چل کر وہ خود ناکام ہوا تھا اور اپنی اس ناکامی کو اس معصوم بچی کے ذریعے کامیابی میں بدلنا چاہتا تھا، بعدازمرگ ہی سہی۔ یہ بھی نہیں دیکھ پایا کہ وہ اپنی پیاری اولاد کو کس کھٹن راستے پر، تباہی کی منزل پر ڈال رہا ہے۔

اور اب اس کا بیٹا جن کے ہنسنے کھیلنے کھانے کے دن ہیں، چاہے تو پشت ہاپشت کی دولتوں اور خزانوں پر بیٹھ کر آرام سے فراغت سے اطمینان سے پرسکون زندگی گزارے۔ لیکن اس کے اندر کا دشمن یا باہر کے دشمن اس کے پیچھے پڑے ہیں، اسے ایسی ہی دشمنوں کے راستوں پر لے جا کر اپنے لیے ایک اور شہید پیدا کر لیں گے۔

نواز شریف کے پاس کیا نہ تھا اور کیا تھا جس کے پیچھے وہ دوڑا ،دیوانہ ہو کر دوڑا، دوڑتا رہا۔ اس کا دشمن کون  تھا یا ہے۔ کوئی نہیں اپنے سوا۔ اور اب یہ ریاست مدینہ کا سربراہ ۔ خیر یہ ہمارے نصاب سے باہر کا سوال ہے۔ لیکن یہ تو ہمارے سامنے ہے۔ کہ ورلڈ کپ کا فاتح بھی کوئی معمولی رتبہ نہیں تھا، پھر ایک خوبصورت مالدار اور بین الاقوامی عورت سے شادی اس سے برطانوی اولاد شوکت خانم اسپتال۔ یعنی اور ان سب سے بالا اعلیٰ اور بلند رتبہ۔ مسیحا کا درجہ اگر اس سلسلے کو جاری رکھتا تو دین و دنیا دونوں سنور جاتے۔ ہر شخص کی زبان ہر تعریف ہی تعریف، تحسین ہی تحسین اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے ہوتی۔ لیکن یہ سب کچھ چھین کر صرف بدنامی، رسوائی، بددعائیں ،گالیاں ،کوسنے کون اسے ’’کما کر‘‘ دے رہا ہے۔ وہ جو خود اس کے اندر بیٹھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔