چند مزید حماقتیں

عبدالقادر حسن  بدھ 29 جنوری 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی ہے، افواہوں سے ملک گونج رہا ہے۔ افواہ عربی زبان کا جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں کئی منہ۔ چنانچہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے جتنے منہ ہیں اتنی ہی افواہیں بھی ہیں۔

کسی محفل میں جائیں تو ان افواہوں اور افواہ بازوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی تفریح طبع کے لیے نئی افواہوں کو سننا چاہتے ہیں لیکن جب عرض کیا جائے کہ لاہور میں اسلام آباد کے مقابلے میں چوتھا حصہ بھی افواہیں گرم نہیں ہیں تو ان حضرات کو لاہور کی مردہ دلی پر سخت افسوس ہوتا ہے اور وہ جو ایک اخبار نویس کو بہت باخبر سمجھتے ہیں ان کو اس بے خبری پر بہت مایوسی ہوتی ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ مجھے بے وقوف بھی سمجھتے ہوں جس کی فقیری کا یہ حال ہے کہ اس کے کشکول میں افواہیں بھی نہیں ہیں۔

ہمار ے گاؤں میں ویسے بھی سردی بہت زیادہ پڑتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار سردیوں میں بارشیں شروع ہو ئیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں، لوگ تنگ آ گئے، ایک بزرگ نے سامنے کے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سارا فتور اس پہاڑ کا ہے جہاں سے بادل اٹھتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں افواہیں جو ابتری اور پریشانی پھیلاتی ہیں وہ سب کی سب اسلام آباد اور اس کے مضافات سے سے اٹھتی ہیں اور سارا فتور انھی کا ہے۔ یہاں کے لوگ کسی حکومت سے دو ایک سال میں ہی اکتا جاتے ہیں ۔ منیرؔ نیازی نے شاید انھی کے لیے کہا تھا کہ:

عادت ہی بنا لی ہے تم نے منیرؔ اپنی

جس شہر میںبھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

اسلام آباد اب نیا شہر نہیں رہا بلکہ پرانا ہو چکا ہے، اس کے باسیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن اصل مقیم اس شہر کی افسر شاہی ہے، ان کے علاوہ اس شہر میں اپنی باری پرآنے جانے والے سیاستدان بھی ہیں جو آتے تو پانچ سال کے لیے ہیں لیکن اپنی حماقتوں کی وجہ سے کبھی تو پانچ سال سے پہلے ہی رخصت کر دیے جاتے ہیں یا پھر رو دھو کر اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرتے ہیں۔ جب ایک بار کسی حکومت کی حماقتوں کا دور شروع ہو جائے تو پھر یہ ختم نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنا پڑتے ہیں، اسی طرح ایک حماقت پر پردہ ڈالنے کے لیے مزید کئی حماقتیں کرنی پڑتی ہیں اور یہ حماقتوں کے پے در پے سرزد ہونے کا دور اس حکومت کے خاتمے پر ختم ہوتا ہے۔

ماضی پر اگر نظر دوڑائیں تو یاد آ جاتا ہے کہ ہر حکومت اپنی کسی حماقت یا حماقتوں کی وجہ سے ختم ہوئی ہے۔ کئی اچھی اور معقول حکومتیں بھی اپنی حماقتوں سے نہیں بچ سکتیں جیسے حماقت اقتدار کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ کسی حکومت کا اقتدار کچھ جما نہیں کہ اس سے حماقتیں سرزد ہونا شروع ہو گئیں اور ان کے ساتھ ہی اس کے زوال کا بھی آغاز ہو گیا ۔ یہ ایک پرانی بدقسمتی ہے جو حکمران کو تو ظاہر ہے پسند نہیں ہے، خود عوام بھی اسے پسند نہیں کرتے، وہ چاہتے ہیں کہ بھلی بری جو حکومت آ گئی ہے وہ اپنا مقررہ وقت پورا نہ بھی کرے تب بھی کچھ وقت تو رہے، اتنا وقت کہ اس کا اپنا کوئی ارادہ اگر ہو تو وہ پورا کر سکے اور کسی وعدے کی وفا کی نوبت آئے۔

ایک وقت میں کہا جاتا تھا کہ ایک کالم نویس کا کام حکومت کی حماقتوں پر ہنسنا اور ان حماقتوں پر لکھنا ہے لیکن یہ اچھے وقتوں کی بات تھی آج تو حکومت کی حماقتوں پر رونا آتا ہے۔ حالات اس قدر تشویشناک اور دگرگوں ہو گئے ہیں کہ بات بات پر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

ہماری موجودہ حکومت ذرا جم کر نہیں بیٹھی تھی کہ اس نے سیاسی مخالفوں کے ساتھ افسروں پر بھی اوچھا ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ۔ کئی مخالف سیاستدان اور افسر شاہی کے اہم مہرے اس کی پکڑ میں آ گئے لیکن ہوا کیا کہ اس اوچھے ہاتھ کی وجہ سے حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا اور ابھی تک کسی بھی ملزم سیاستدان یا افسر پر کوئی جرم ثابت نہیں کیا جا سکا، عدالتیں ان ملزموں کو ضمانتوں پر رہا کر رہی ہیں اور حکومت کسی الزام کو ثابت کر کے کے جرم میں تبدیل نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے حکومت کی سبکی ہو رہی ہے۔

عوام بے وقوف ہوتے ہیں مگر ان کو ہمیشہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔ آج سب کو معلوم ہے کہ حکومت غلط کار لوگوں کے خلاف جو جہاد کر رہی ہے اور خود منصف بنی بیٹھی ہے، وہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اور صریحاً امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور حکومتوں کا امتیازی سلوک کبھی قبول عام نہیں پا سکتا بلکہ بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے اور حکومت کی ایک حماقت بن جاتا ہے، ایک انتقامی کارروائی، ایک ایسی حرکت جو سرا سر اپوزیشن کے حق میں جاتی ہے اور یوں اپوزیشن کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومت کے کچھ اہم کارندے اندر سے اپوزیشن سے مل گئے ہیں اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب انھی کے اشاروں اور مشوروں پر ہو رہا ہے۔

عمران خان کی حکومت بڑے زور و شور کے ساتھ ایسے کام کر جاتی ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں۔ کرنے کو تو وہ یہ کام کر جاتی ہے لیکن جلد ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ جاتی ہے اور پھر اس پر یوٹرن لے لیتی ہے۔ عرض یہ کرنی ہے کہ اگر حکومت اپنے بلند و بانگ وعدوں کو وفا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے تو پھر اسے مزید حماقتوں سے بچنا ہو گا اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ عقل سمجھ سے سوچ بچار کر کے قدم اٹھائیں خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کریں، عوام تو اخبارات اور ٹی وی سے دور رہ لے گی لیکن کہیں وہ حکمرانوں کو اپنے آپ سے دور نہ کر دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔